ہمارا سیاحتی گروپ ڈسٹرکٹ” سین کروز“ پہنچا یہاں سیاحوں کا بہت رش ہے پانچ سے زیادہ خوبصورت گھوڑوں کی بگھی ‘ گورے سیاحوں کو شہر کی سڑکوں اور گلیوں کی سیر کروا رہی ہے‘ بدمست گھوڑے بگھی کو تیز بھگا رہے ہیں گھوڑوں کے سائیں ان کو قابو میں کئے ہوئے ہیں پانچ لوگ اس بگھی میں سوار ہو سکتے ہیں اور ٹکٹ 25 یورو ہے یعنی5یورو فی کس کے حساب سے بگھی کی ایک سیر کی جا سکتی ہے ‘ سویا خوبصورت شہر ہے یہاں پرچل پھر کر دل کو نہ جانے کیوں تسکین سی ملی‘ حالانکہ اس کی کوئی اور وجہ نہیں ہے سان کروز کا ڈسٹرکٹ تنگ گلیوں اور سوونیز شاپس پر مشتمل ہے۔ نکولس ہمارا گائیڈ ہے اس نے بتایا کہ ہم اسپنیش سکوائر میں کھڑے اور سامنے سویا شہر کی سب سے بڑی کیتھڈرل موجود ہے ‘یہاں کرسٹوفر کولمبس دفن ہے‘ میں نے کرسٹوفر کولمبس کے بارے میں بہت پڑھا ہوا ہے کہ اس نے امریکہ دریافت کیا تھا لیکن وہ یہاں سویا کے شہر اسپین میں دفن ہے یہ میں نہیں جانتی تھی ‘مجھے بے انتہا تجسس ہوا اور یقیناً خوشی بھی ہوئی کہ میں اس کی قبر دیکھنے والی ہوں ہم اس کیتھڈرل میں ہیں جو ڈسٹرکٹ سان کروز کے بالکل سامنے ہے ‘بہت عظیم الشان کیتھڈرل ہے جو وسیع و عریض رقبے پر پھیلا ہوا ہے جیسے ہی کیتھڈرل میں داخل ہوں تو سامنے ہی کرسٹوفر کولمبس کے اصل تابوت کو اسپین کے چار بادشاہوں کے مجسموں نے ہاتھوں میں اٹھایا ہوا ہے یہ زمین سے15فٹ کی بلندی پر ہوگا سیاحوں کے کیمرے کر سٹوفر کولمبس کے تابوت کی تصاویر اس طرح لے رہے ہیں جس طرح ہالی وڈ کے فنکاروں کے اوپر ذوق و شوق کے ساتھ فلیشز آن ہوتی ہیں ‘کرسٹوفر کولمبس 1451ءمیں پیدا ہوا وہ اٹلی کا رہنے والا تھا بہت بہادر اور ارادوں کا پکا تھا‘ ہمیشہ اپنی زندگی سے ناخوش رہنے والا انسان تھا‘ اسے خود بھی علم نہ تھا کہ اس کا نام صدیوں تک تاریخ کے صفحات میں آج بھی زندہ رہے گا اور چین اور انڈیا جانا چاہتا تھا دراصل وہ سونے جواہرات اور مصالحہ جات کی تلاش کے لئے ان ممالک کا سفر کرنا چاہتا تھا لیکن وہ شمالی اور جنوبی امریکہ پہنچ گیا اس کے بعد وہ کئی مرتبہ دوبارہ ان ممالک میں گیا اس سے پہلے امریکہ کی سرزمین کے بارے میں دنیا نہیں جانتی تھی واسکوڈی گاما اپنے زمانے کا بہت بڑا سیاح تھا لیکن کولمبس نے امریکہ دریافت کرکے اپنے آپ کو تاریخ میں منوا لیا‘ازابیلا جو اسپین کی مشہور ملکہ تھی‘ وہ اس لئے بھی تاریخ کے صفحات میں یاد رکھی جائے گی کہ اس نے کرسٹوفر کولمبس کو امریکہ دریافت کرنے کیلئے مکمل مالی امداد فراہم کی تھی اور کرسٹوفر کولمبس سویا کی بندرگاہ یعنی بحیرہ روم سے ہوتا ہوا بحراوقیانوس میں داخل ہوا تھا کرسٹوفر کولمبس کے بارے میں زیادہ دلچسپ کہانی یہ ہے کہ اس کا انتقال امریکہ میں ہوا تھا اور وہیں دفن ہوا بعد میں اس کا تابوت اٹلی لے جایا گیا جو اس کا اپنا وطن تھا لیکن اسپین کی حکومت کرسٹوفر کولمبس کو اپنا شہری مانتی تھی کیونکہ اس نے زندگی کا زیادہ عرصہ اسپین میں گزارا تھا اور وہ ملکہ ازابیلا کا منظور نظر تھا اسپین کی حکومت کی درخواست پر کرسٹوفر کولمبس کا تابوت اسپین کے شہر سویا لایا گیا اور اس عظیم الشان کیتھڈرل میں اپنی اصل حالت میں رکھ دیا گیا لیکن تابوت کو لانے لے جانے میں حکومت اسپین کو شک تھا کہ تابوت کے اندر اصل کرسٹوفر کولمبس ہے یا اس میں کسی اور کی باقیات ہیں یہ بات بھی یقیناً دلچسپی سے خالی نہیں ہوگی کہ مرے ہوئے کرسٹوفر کولمبس کا ڈی این اے ٹیسٹ بیسویں صدی ہی میں ہوا اور جس کیتھڈرل میں کرسٹوفر کولمبس کا تابوت بادشاہوں کے مجسموں نے کندھوں پر اٹھایا ہوا ہے اسی کیھتڈرل میں اس کے سگے بیٹے کی قبر ہے جو اسی چرچ میں پادری تھا ‘دنیا کی تاریخ میں ایساپہلی بار ہوا تھا کہ ایک مر ے ہوئے شخص کی پہچان کیلئے دوسرے مردہ شخص کے ساتھ ڈی این اے ٹیسٹ ہوا جس کا نتیجہ مثبت تھا اور اس طرح کرسٹوفر کولمبس کے اصل تابوت کا فیصلہ سامنے آگیا بعد میں ہم نے بس کے اندر ہی سے وہ ہسپتال بھی دیکھا جہاں کے ڈاکٹروں نے یہ ڈی این اے ٹیسٹ کیا تھا کیھتڈرل میں سیاح بہت بڑی تعداد میں موجود ہیں جن کی توجہ کا اصل مرکز کرسٹوفر ہی ہے یہاں الگ الگ سے حصہ ایسا ہے جہاں عبادت گاہ بنی ہوئی ہے اور اس کے بارے میں مشہور ہے کہ اگر وہ خواتین یہاں شمعیں جلائیں جو اپنی شادی کیلئے خواہشمند ہیں تو ان کی یہ آرزو پوری ہو جاتی ہے‘ اسپینش سکوائر میں بنچ بنے ہوئے ہیں تاکہ سیاح بیٹھ کر سیاحت سے لطف اندوز ہوں میں اپنی ایک گروپ ساتھی کے ہمراہ سویا کے کسی بازار کی طرف نکل گئی تاکہ کچھ خرید سکوں اور واقعی یہاں قیمتیں بہت زیادہ نارمل ہیں میں نے10یورو کا بہت خوبصورت پرس خریدا اوراتنی ہی قیمت کا سپین کا ہی بنا ہوا بے حد اسٹائلش جوتا بھی خریدا‘ میرے ساتھیوں نے تو دو یورو سے پانچ یورو تک میں بھی بہت خوبصورت اشیاءخریدی ہیں جبکہ میڈریڈ اور بارسلونا میں قیمتیں آسمان تک باتیں کررہی تھیں ہمارے منیجر نے گروپ ممبرز کو دوپہر کا کھانا اور شاپنگ کیلئے بہت ساوقت دے دیا اور ہم سب لوگ بکھر گئے تاکہ غرناطہ جانے کیلئے دوبارہ جمع ہو سکیں میں اپنی ایک ساتھی کے ساتھ اپنی بس کے بالکل قریب ایک چوک میں بیٹھ گئی تاکہ سڑک پر چلنے والے لوگوں کے مشاغل کو دیکھ سکوں یہاں بھی کئی کبوتر کھانے پینے کی تلاش میں ریستوران کی کرسیوں کے آس پاس گھوم رہے ہیں‘ سڑک پر ٹریفک رواں ہے صفائی کرنے والے صاف ستھری سڑکوں کو بھی صاف کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں لوگ مہذب ہیں کوئی کسی کو جھانک کرنہیں دیکھ رہا ہر ایک اپنی زندگی اور اپنے آپ میں مگن ہے سب کچھ بہت شائستہ ہے آج اتوار ہے اس لئے تقریباً تمام دکانیں ہی بند ہیں نہ جانے میرا سارا گروپ کون سی دوکانوں پر شاپنگ کررہاہوگا کیونکہ یورپ اور امریکہ کے لوگ اتوار کو اپنی ذاتی زندگی کو ترجیح دینے کے خواہشمند ہوتے ہیں اس لئے کاروبار زیادہ تر بند ہوتے ہیں۔