پاکستان اور امریکہ کے تعلقات اگر طویل المیعاد بنیادوں پر استوار کئے جائیں اور انہیں باہمی فائدہ مند بنانے کیلئے اسٹرٹیجک ری سیٹ (نظرثانی) کی جائے تو اِس سے بہتری کی صورت نکل سکتی ہے۔ ماضی کے سکیورٹی منصوبوں کی عارضی نوعیت کی وجہ سے دونوں ممالک کی قیادت اور عوام میں ایک دوسرے کے بارے میں شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں اور اِس صورتحال سے عوامیت پسندانہ بیانات کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے۔ امریکہ، جسے اکثر اپنی عالمی رسائی اور اثر و رسوخ کی وجہ سے ’ہر ملک کا ہمسایہ‘ بھی کہا جاتا ہے‘ عالمی معاملات میں اہم مقام رکھتا ہے اور اِسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا لہٰذا پاکستان کیلئے ایسے عالمی ہمسایہ ملک کے ساتھ تعلقات خراب کرنا نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کو ”کلائنٹ پروٹیج“ کے فرسودہ سانچے سے باہر نکلنے اور عالمی مقابلے سے الگ رکھنے کی ضرورت ہے جو آج جیو پولیٹیکل منظر نامے پر حاوی ہے۔ امریکہ کو پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کو چین اور بھارت کے ساتھ تعلقات کی عینک سے دیکھنے کی ضرورت ہے اور اِس کیلئے اسے اپنے رجحانات و ترجیحات کا بھی ازسرنو جائزہ لینا ہوگا۔ یہ نقطہ¿ نظر ایک ایسے خطے میں جغرافیائی سیاسی اثر و رسوخ کیلئے نمایاں طور پر نقصان کا باعث ہے جو جنوبی اور مغربی یا وسطی ایشیا کے درمیان اہم پل جیسی حیثیت رکھتا ہے۔ امریکی اسٹرٹیجک کمیونٹی کو علاقائی بالادستی قائم کرنے کیلئے بھارت کا انتخاب کرنے کی بجائے حقیقت پسندی سے کام لینا چاہئے۔ امریکہ کو دیکھنا چاہئے کہ بھارت کی خواہشات کیا ہیں اور وہ چین اور جوہری ہتھیاروں سے لیس اپنے ہمسایہ ممالک سے کس قسم کے تعلقات چاہتا ہے۔ یہ صورتحال امریکی پالیسی سازوں کیلئے تشویش کا باعث ہونی چاہئے۔ ایران پر عائد اقتصادی پابندیوں اور غیرمستحکم افغانستان کی وجہ سے مغربی اور وسطی ایشیا تک رابطے کے آپشنز میں رکاوٹیں پیدا ہو رہی ہیں، امریکہ اس جغرافیائی سیاسی علاقے کو چین اور روس کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کیلئے کھلا چھوڑنے کا متحمل بھی نہیں ہو سکتا۔ دونوں ممالک فعال طور پر خطے میں قدم جما رہے ہیں جس سے امریکی مفادات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ جوہری معاہدے کے بعد ایران اور مشرق وسطیٰ میں بدامنی نے مغربی ایشیا میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی اسٹرٹیجک کمزوریوں کو بے نقاب کیا ہے۔ جنوبی اور وسطی ایشیا میں امریکہ کی موجودگی یا عدم موجودگی کی وجہ سے یہ کمزوری مزید بڑھ گئی ہے۔ ایشیا بحرالکاہل کے اتحادوں جیسا کہ یو کے یو کے ایس، کواڈ اور آئی پی ای ایف میں امریکہ کی دلچسپی اور سرمایہ کاری کافی نہیں کیونکہ جب بھی خطے میں کشیدگی بڑھتی ہے تو اِس سے خاص طور پر چین کا مقابلہ کرنے میں بھارت کی ہچکچاہٹ اور نااہلی عیاں ہوتی ہے۔ امریکہ اور پاکستان کیلئے سب سے بڑا چیلنج اپنے تعلقات کا ایک نیا اور پائیدار ماڈل تیار کرنا ہے جو اسٹرٹیجک اور اقتصادی دونوں مفادات پر مبنی ہو۔ اسٹرٹیجک طور پر اس ماڈل میں انسداد دہشت گردی، انسداد منشیات اور جوہری عدم پھیلا¶ اِس کے خاص اجزا¿ ہو سکتے ہیں۔ اقتصادی طور پر اس میں ایشیا بحرالکاہل کی تجارت اور اقتصادی گرڈ کو بی آر آئی سے جوڑنا بھی شامل ہوسکتا ہے۔ پاک بھارت مفاہمت کو فروغ دے کر اور بھارت، پاکستان اور وسطی ایشیا کو ملانے والے مشرقی مغربی رابطے کو فروغ دے کر تاپی پائپ لائن (ترکمانستان‘ افغانستان‘پاکستان‘ انڈیا پائپ لائن) اور کاسا 1000 (وسطی ایشیا جنوبی ایشیا بجلی کی ترسیل اور تجارت) جیسے منصوبوں کو عملی جامہ پہنایا جا سکتا ہے۔ یہ اقدامات میگا انفراسٹرکچر منصوبوں میں امریکی نجی شعبے کی سرمایہ کاری (شمولیت) کیلئے خاطر خواہ مواقع فراہم کریں گے۔ اس طرح کے روابط سے امریکہ کو دو واضح فوائد حاصل ہوسکتے ہیں۔ سب سے پہلے، امریکی نجی شعبے کو افغانستان اور پاکستان کے معدنی وسائل تک رسائی حاصل ہو جائے گی اور دوسرا یہ کہ امریکہ افغانستان، پاکستان اور وسطی ایشیائی ریاستوں پر نمایاں اقتصادی برتری حاصل کر لے اور چین اور روس جیسے عالمی حریفوں کے زبردست معاشی غلبے کو کم کر سکے گا تاہم ان جغرافیائی اور معاشی فوائد کو محسوس کرنے کیلئے قدامت پسند ذہنیت سے رجوع کرنے کی ضرورت ہے۔ امریکہ کے نومنتخب صدر ٹرمپ کو پاکستان مخالف اثر و رسوخ کے خلاف مزاحمت کرنی چاہئے۔ پاکستان کے ساتھ روابط سے امریکہ کو چین اور بھارت کے مقابلے میں زیادہ فائدہ حاصل ہوگا جبکہ وسطی ایشیا میں روابط کیلئے بھی اِسے وسعت ملے گی۔ پاکستان، جس کی آبادی چوبیس کروڑ ہے جن میں سے چونسٹھ فیصد آبادی تیس سال سے کم عمر افراد پر مشتمل ہے خطے کا اہم ملک ہے۔ پاکستان کے نوجوان امریکی تعلیمی نظام اور ثقافت میں ضم ہونے کیلئے تیار ہیں۔ مزید برآں، امریکہ میں مقیم پاکستانی تارکین وطن، جن میں 13 ہزار ڈاکٹرز بھی شامل ہیں، پاک امریکہ مضبوط تعلقات کو فروغ دینے کیلئے انمول اثاثہ ہیں۔ پاکستان امریکی سرمایہ کاروں کے لئے زراعت، توانائی، معدنی وسائل کی تلاش اور انفارمیشن سیکیورٹی جیسے شعبوں میں پرکشش اقتصادی مواقع فراہم رکھتا ہے۔ امریکہ پاکستان کی سب سے بڑی برآمدی مارکیٹ ہے اور دونوں ممالک نے 2003ءسے ٹریڈ اینڈ انویسٹمنٹ فریم ورک ایگریمنٹ (ٹیفا) پر دستخط کر رکھے ہیں۔ اس معاہدے پر اگر خاطرخواہ عمل درآمد کیا جائے تو اِس سے دوطرفہ تجارت اور سرمایہ کاری کو نمایاں طور پر فروغ مل سکتا ہے۔ پاکستان ٹیکسٹائل، فوڈ اور انفارمیشن ٹیکنالوجی جیسی صنعتوں میں اگلے تین سے پانچ برس میں امریکہ کو اپنی برآمدات کو پانچ ارب ڈالر تک بڑھا سکتا ہے۔ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں اسٹرٹیجک ری سیٹ سے دوطرفہ تعلقات کو از سر نو ترتیب دیا جا سکتا ہے جس سے دونوں ممالک کو فائدہ ہوگا۔ مشترکہ اقتصادی مفادات پر مبنی شراکت داری کو فروغ دے کر امریکہ جنوبی اور وسطی ایشیا میں اپنی جغرافیائی سیاسی پوزیشن کو مضبوط بنا سکتا ہے جبکہ پاکستان کو انتہائی ضروری معاشی اور تکنیکی مدد حاصل ہوسکتی ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر راشد ولی جنجوعہ۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)