بے اعتنائی کی کوئی حد نہیں ہوتی؟

پاکستان خطے کا تو کیا دنیا کا واحد ملک ہے جہاں پر بیک وقت تعلیم کے پانچ نظام یا نصاب رائج ہیں  اگر یقین نہ ہو تو گن لیں یہ واحد ملک ہے جہاں  پر تعلیمی بجٹ سب سے کم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے اور جو ہے وہ بھی تعلیم و تحقیق اور تربیت سے کہیں زیادہ تنخواہوں اور مراعات کی نذر ہو جاتا ہے‘ ہاں البتہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد اعلیٰ تعلیم یعنی یونیورسٹیاں اب ان اخراجات کے زمرے سے بھی آہستہ آہستہ باہر ہو رہی ہیں‘ترمیم کے تحت اعلیٰ تعلیم بھی صوبوں کے گلے میں ڈال دی  گئی ہے‘حالانکہ صوبے کے زیر انتظام کالجز کی حالت ڈھکی چھپی نہیں تھی‘ بلکہ دیدنی تھی‘وفاقی حکومت نے گزشتہ سال یکے بعد دیگرے تین مرتبہ یونیورسٹیوں کو مراسلہ تھما دیا کہ اب آپ کو وفاقی حکومت کی طرف سے کوئی پیسہ نہیں ملے گا کیونکہ یہ اب صوبے کی ذمہ داری ہے لیکن صوبوں نے جب بجٹ دیا تو خیبرپختونخوا واحد صوبے کے طورپر سامنے آیا جس کے بجٹ میں یونیورسٹیوں کیلئے کوئی حصہ نہیں رکھا گیا‘اساتذہ کی مرکزی تنظیم سمیت یونیورسٹیوں کے اساتذہ اور نان ٹیچنگ سٹاف کی یونینز نے بارہا اپنے مطالبات دہرائے مگر یونیورسٹیاں بے بجٹ ہی رہیں  اور اب حالت یہ ہے کہ ملک کی سب سے قدیم درسگاہ پشاور یونیورسٹی کا بجٹ خسارہ اربوں روپے تک پہنچ گیا ہے اور ملازمین ان سطور کے  لکھنے کے وقت5دسمبر تک نومبر کی تنخواہوں سے محروم تھے‘ پنشنرز کی تو بات ہی الگ ہے وہ تو گزشتہ اور سال رواں کے پورے12مہینے کے بجٹ اضافے کے بقایا جات سے تاحال محروم ہیں جبکہ حاضر سروس کے بقایا جات بھی سات مہینوں تک پہنچ گئے جامعہ پشاور کی فنانس اینڈ پلاننگ کمیٹی نے تین مرتبہ ملتوی شدہ اور چوتھی بار منعقدہ اپنے اجلاس میں مالی سال2024-25 کے بجٹ میں ہونے والے تنخواہوں اور پنشن کے اضافے کی منظوری تو دیدی مگر اس شرط کیساتھ کہ ادائیگی فنڈ یا بجٹ کی دستیابی کیسے اور کہاں سے ہوگی؟ جب وفاقی حکومت نے آئینی ترمیم کو جواز بنا کر خود کو بری الذمہ کر دیا اور صوبائی بجٹ  میں اعلیٰ تعلیم یعنی یونیورسٹیوں کا کوئی حصہ ہی نہیں تو کیا یونیورسٹی محض طلباء کی فیسوں سے چلے گی؟ جس ملک میں تعلیم کے پانچ نصاب رائج ہوں جس ملک میں تعلیم و تحقیق اور تربیت کیلئے مالی وسائل کا انتظام غیر ضروری ہو جہاں پر یونیورسٹیاں تنخواہوں کی ادائیگی سے بھی قاصر ہوں جہاں پر رکشہ والے بھی یونیورسٹی کے قواعد و ضوابط کو جوتے کی نوک پر رکھ کر یونیورسٹی کے ماحول کو لاری اڈے کے ماحول جیسی حالت میں برقرار رکھنے پر تلے ہوئے ہوں اور منع کرنے پر یونیورسٹی پر حملہ آور ہونے سے بھی کوئی روکنے والا نہ ہو‘ وہاں پر یہ بات کس حد تک درست مانی جا سکتی ہے کہ ہم جمہوریت اور معیشت کی ترقی آئین اور قانون کی بالادستی جبکہ معاشرے سے انتہا پسندی‘ فرقہ پرستی‘ دہشت گردی اور پسماندگی کا خاتمہ چاہتے ہیں اور ہم پولیو اور موسمیاتی تبدیلی کے چیلجز کو شکست دینے میں سنجیدہ ہیں‘جامعہ پشاور میں سال2018ء کے بعد کسی ٹیچر کو ترقی نہیں ملی‘ان میں کثیر تعداد پی ایچ ڈی ہولڈر خواتین کی بھی ہے‘ صوبے کی ایک گزشتہ حکومت نے فنڈز کی فراہمی کی بجائے اخراجات کم کرنے کیلئے یونیورسٹی کے سینکڑوں ایڈہاک ملازمین کو نکال باہر کیا‘ جن میں یونیورسٹی کے تقریباً70چوکیدار یا سکیورٹی گارڈ بھی شامل تھے جن کی جگہیں کئی سال خالی پڑی تھیں مگر انتظامیہ بھرتی کا رسک اس لئے نہیں لے سکتی تھی کہ پیسہ نہیں تھا‘یونیورسٹی میں اصلاح احوال کی جو مہم شروع کی گئی ہے اس کی مخالفت میں سیاسی عناصر‘ سیاسی جماعتوں سے وابستہ بعض طلباء جبکہ یونیورسٹی کے وہ کلاس تھری اور کلاس فور ملازمین بھی ایک پیج پر ہیں جن پر غیر قانونی ناقابل استعمال رکشوں‘ ٹیکسیوں‘ تہہ بازاری‘ریڑھیوں ٹھیلوں اور سٹالز میں حصہ داری کا الزام ہے‘کہتے ہیں کہ حکومت نے یونیورسٹی پر ہونے والے حملے کا نوٹس لے لیا ہے؟ دیکھتے ہیں کہ ملوث ان عناصر کے خلاف کیا اقدام ہوگا؟ اور یونیورسٹی میں تعلیمی ماحول کی بحالی میں حکومتی سرپرستی کس حد تک سامنے آئے گی؟ صرف یہ نہیں بلکہ اساتذہ کی دی گئی ڈیڈ لائن گزرنے کے بعد دیکھا جائے گا کہ احتجاج ہوگا یا نہیں؟ کیونکہ ویسے بھی اساتذہ اکیلے ہیں احتجاج میں کلاس تھری اور کلاس فور کی شمولیت بوجوہ نہ ہونے کے برابر ہے۔