امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کا محصولات پر انحصار ایک اہم پالیسی ٹول ہے۔ ٹرمپ نے اپنی پہلی صدارتی مدت کے دوران بھی معاملے کو ترجیح بنائے رکھا تھا۔ ابتدائی طور پر امریکی صنعتوں کے تحفظ اور تجارتی عدم توازن کو درست کرنے کے طور پر تیار کیا گیا اور یہ ٹیرف جلد ہی ان کی وسیع تر جغرافیائی سیاسی حکمت عملی کا سنگ بنیاد بن گیا۔ اب، عالمی سطح پر ممکنہ واپسی کے لئے تیار، ٹرمپ کے بڑے تجارتی شراکت داروں پر بھاری محصولات عائد کرنے کے بارے اعلانات ہوئے ہیں۔ حالیہ اعلانات نہ صرف اس نقطہئ نظر کے تسلسل کی نشاندہی کرتے ہیں بلکہ اس میں اضافے کی نشاندہی بھی کر رہے ہیں‘ جس کے دور رس گھریلو اور بین الاقوامی نتائج ہوسکتے ہیں۔امریکہ کے نومنتخب صدر کے ساتھ منصفانہ سلوک کرتے ہوئے‘ ٹرمپ محصولات کو نافذ کرنے والے پہلے شخص نہیں۔ تاریخی طور پر، بہت سے دیگر ممالک کی طرح، امریکہ نے ابھرتی ہوئی صنعتوں کے تحفظ اور آمدنی پیدا کرنے کے لئے محصولات کا استعمال کیا تاہم، امریکہ کا سموٹ ہولے ٹیرف ایکٹ 1930ء محصولات سے وابستہ خطرات کی وضاحت کرتا ہے۔ اس قانون نے متعدد درآمدی محصولات میں اضافہ کیا اور خیال کیا جاتا ہے کہ اس نے عالمی تجارت کو روک کر گریٹ ڈپریشن کو مزید خراب کیا ہے۔اپنے پہلے دور حکومت میں ٹرمپ کی محصولاتی پالیسیوں نے ان سابقہ اقدامات کی بازگشت سنائی دی لیکن ان کے سیاسی مضمرات بھی سامنے آئے۔ انہوں نے قومی سلامتی کے خدشات کا حوالہ دیتے ہوئے اسٹیل اور ایلومینیم کی درآمدات پر محصولات عائد کئے۔ ان اقدامات کا مقصد امریکی گھریلو پیداوار کو بحال کرنا تھا لیکن درآمد شدہ مواد پر انحصار کرنے والے مینوفیکچررز کے لئے لاگت میں بھی اضافہ ہوا جس سے صارفین کے لئے قیمتیں زیادہ ہوئیں۔ ٹرمپ نے ان ممالک کو بھی نشانہ بنایا جن کا امریکہ کے ساتھ تجارتی سرپلس تھا، خاص طور پر چین کے ’میڈ ان چائنا 2025ء‘ اقدام سے وابستہ اہم شعبوں پر 10فیصد محصولات عائد کئے گئے۔ مؤخر الذکر اقدام نے چین کو جدید ٹیکنالوجی کی صنعتوں میں رہنما کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی، جس سے عالمی مسابقت پر امریکی خدشات حاوی ہو گئے۔ اس کے جواب میں بیجنگ نے جوابی کاروائی کرتے ہوئے امریکی زرعی مصنوعات پر محصولات عائد کئے اور امریکی منڈیوں پر انحصار کم کرنے کے لئے تجارتی شراکت داروں کو متنوع بنایا گیا لیکن امریکہ اور چین کے درمیان تجارتی تعلقات کے حوالے سے جاری کشیدگی یہیں ختم نہیں ہوئی۔ڈونلڈ ٹرمپ کی پہلی صدارت کے دوران یورپی یونین تجارتی پالیسیوں کا اہم ہدف تھا۔ آٹوموٹو برآمدات پر محصولات کی دھمکیوں نے شدید تنقید کو جنم دیا، جس کی وجہ سے یورپی یونین نے بوربن اور موٹر سائیکلوں جیسی مشہور امریکی مصنوعات پر محصولات کے ساتھ جوابی کاروائی کی۔ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (ڈبلیو ٹی او) میں قانونی چیلنجوں کی وجہ سے ہونے والی ان تجارتی جھڑپوں نے ٹرمپ کے دور میں امریکہ اور یورپی یونین کے اقتصادی تعلقات کو نمایاں طور پر کشیدہ کر دیا تھا۔ کشیدگی میں مزید اضافہ بھی ہوا، امریکہ نے ڈبلیو ٹی او اپیلیٹ باڈی (ڈبلیو اے بی) میں نئے ججوں کی تقرری کو روک دیا، جس سے یہ مؤثر طور پر غیر فعال ہو گیا۔ اس اقدام کا جواز پیش کرتے ہوئے انتظامیہ نے ڈبلیو ٹی او پر امریکی مفادات کے خلاف تعصب کا الزام عائد کیا۔ بائیڈن کی صدارت میں یہ مفلوج پن برقرار ہے اور امریکہ نئی تقرریوں میں مسلسل رکاوٹیں ڈال رہا ہے۔ ٹرمپ کی جانب سے محصولات کی دھمکیاں صرف مخالفین تک محدود نہیں۔ وہ امریکہ کے قریبی اتحادیوں اور شراکت داروں کے لئے خطرہ ہیں۔ انہوں نے غیر قانونی امیگریشن اور منشیات کی اسمگلنگ کے خدشات کا حوالہ دیتے ہوئے کینیڈا اور میکسیکو سے تمام درآمدات پر پچیس فیصد ٹیرف کی تجویز پیش کی ہے۔ کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے مذاکرات کے مطالبے کے ساتھ اقتصادی تعاون کو برقرار رکھنے کی اہمیت پر زور دیا۔ اس کے برعکس میکسیکو کی صدر کلاڈیا شین بام نے متنبہ کیا کہ اس طرح کے اقدامات سے سرحد کے دونوں جانب افراط زر اور ملازمتوں میں کمی آئے گی۔ ٹرمپ کی جانب سے محصولات کی دھمکی کے محض اعلان نے امریکہ اور میکسیکو کے درمیان آزاد تجارتی معاہدے کو خطرے میں ڈال دیا ہے، جس کی وجہ سے میکسیکو پیسو ڈالر کے مقابلے میں گر گیا۔(بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر عابد قیوم سلیہری۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
۔ برسلز بھی ٹرمپ کے متوقع محصولات کا سامنا کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ یہ اپنے کار سازوں اور دیگر صنعتی کمپنیوں کے لئے نئی مارکیٹیں کھولنے کے لئے پرعزم ہے۔ اس سلسلے میں ایک عملی قدم طویل عرصے سے انتظار کیا جانے والا تجارتی معاہدہ ہے (جو گزشتہ پچیس برس سے مذاکرات کے تحت تھا) جس پر یورپی یونین اور مرکوسر (ارجنٹائن، بولیویا، برازیل، پیراگوئے اور یوراگوئے پر مشتمل ایک کسٹم یونین) کے درمیان چند روز قبل دستخط کئے گئے تھے۔ محصولات پر ٹرمپ کی نئی توجہ گلوبلائزیشن کی جاری پسپائی کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے، جسے اکثر ’سلوبلائزیشن‘ کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔ ایک زمانے میں ہموار بین الاقوامی تجارت اور ایک دوسرے سے منسلک سپلائی چینز کا پھلتا پھولتا دور مسلسل منقسم تجارتی بلاکوں، علاقائی اتحادوں اور بڑھتے ہوئے تحفظ پسندی کی راہ ہموار کر رہا ہے۔ بھاری محصولات عائد کرکے اور کثیر الجہتی تجارتی اصولوں کو کمزور کرکے، ٹرمپ نے اس تبدیلی کو تیز کرنے کا خطرہ مول لیا ہے۔ ان کے محصولات اضافی رکاوٹیں کھڑی کر سکتے ہیں جو سرحد پار سرمایہ کاری کو کم کر سکتے ہیں، مارکیٹ تک رسائی کو محدود کر سکتے ہیں اور عالمی تعاون سے فروغ پانے والی جدت کو روک سکتے ہیں۔ترقی پذیر ممالک، جو عالمی تجارت کی استعداد کار پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں، ٹرمپ کے دور حکومت میں سب سے زیادہ بوجھ برداشت کر سکتے ہیں جنہیں برآمدات کے مواقع میں کمی اور گہری اقتصادی تقسیم کا سامنا رہے گا۔ دیکھنا یہ ہے کہ آیا ٹرمپ کی تجدید شدہ ٹیرف حکمت عملی اپنے جغرافیائی سیاسی مقاصد کو حاصل کرے گی یا معاشی تقسیم اور عالمی تناؤ کو مزید خراب کرے گی؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔