اپنے قارئین کے اصرار پر آج کے کالم کا آ غاز ہم چند اقوال زریں سے کر رہے ہیں؛”جب تک تمہارے نصیب یاور ہیں تمہارے عیب ڈھکے ہوئے ہیں“”قناعت وہ سرمایہ ہے جو ختم نہیں ہو سکتا“”دوستوں کو کھو دینا غریب الوطنی ہے“”جب عقل بڑھتی ہے تو باتیں کم ہو جاتی ہیں“”اس شخص پر تعجب ہوتا ہے کہ جو توبہ کی گنجائش کے ہوتے ہوئے مایوس ہو جائے“ ”بوڑھے کی رائے جوان کی ہمت سے زیادہ اہم ہوتی ہے“”دنیا کی مثال سانپ کی سی ہے کہ جو چھونے میں نرم معلوم ہوتا ہے مگر اسکے اندر زہر ہلاہل بھرا ہوتا ہے‘ فریب خوردہ جاہل اس کی طرف کھنچتا ہے اور ہوشمند و دانااس سے بچ کر رہتا ہے“”جو میانہ روی اختیار کرتا ہے وہ محتاج نہیں ہوتا“ آئیے اب ملک میں لائبریری کلچر کے فقدان کے بارے میں چند باتیں ہو جائیں‘ جن ممالک نے دینی سماجی سیاسی اور سائنسی علوم میں ترقی کی ہے ان کے ہر شہر میں ہر فرلانگ کے بعد آپ کو ایک لائبریری نظر آئے گی‘ اپنے ہاں الٹی گنگا بہتی ہے‘پشاور شہر کی ہی مثال لے لیجئے گا کچھ عرصہ پہلے تک میونسپل کمیٹی کی ایک اچھی بھلی لائبریری شہر کے وسط میں چوک یادگار کے قریب ہوا کرتی تھی اب اس کا نام و نشان تک مٹ چکا ہے‘ اسی طرح ہمیں یاد ہے پشاور شہر کے کئی محلوں میں میونسپل کمیٹی کے ریڈنگ رومز ہوا کرتے تھے جن میں اخبارات اور رسائل موجود ہوتے جو محلے میں بسنے والے بڑے شوق سے پڑھتے‘اب یہ سب باتیں قصہ پارینہ ہو چکی ہیں‘مغرب میں تو انہوں نے نظام تعلیم ہی اس نوعیت کاوضع کیا ہوا ہے کہ تعلیمی اداروں کے ہر طالب علم کو لازماً لائبریریوں میں بیٹھ کر متعلقہ کتابوں کو پڑھ کر مضامین لکھنا پڑتے وہاں رٹا سسٹم نہیں چل سکتا جب تک اس ملک کی نئی نسل کتب بینی کی طرف مائل نہ ہوگی یا ان کو اس طرف مائل نہیں کیا جائے گا‘ یہ ملک زندگی کے کسی بھی میدان میں آ گے نہیں بڑھ سکے گا ماہرین تعلیم کو ملک میں لائبریری کلچر کو فروغ دینے کیلئے خصوصی توجہ دینا ہوگی۔ پنجاب کی وزیر اعلیٰ زندگی کے مختلف شعبوں میں تیزی اور دلجمعی سے اختراعی کام کر رہی ہیں کیا ان سے یہ توقع کی جا سکتی کہ وہ پنجاب کی سطح پر لائبریری کلچر کے فروغ کے واسطے کوئی منصوبہ شروع کریں‘ شاید ان کی دیکھا دیکھی اس ضمن میں دیگر صوبے بھی پھر اس سلسلے میں مناسب اقدام اٹھانے پر مجبور ہو جائیں‘ 1960ء کی دہائی تک پرانے سیاست دانوں کا یہ شیوہ تھا کہ وہ کسی مسئلے پر حکومت وقت کے خلاف احتجاج کرتے تو عشاء کی نماز کے بعد شہر کے کسی مرکزی مقام پر جلسہ عام منعقد کرتے جو رات گئے تک جاری رہتا‘ نہ ٹریفک میں خلل پڑتا اور نہ ٹریفک جام سے لوگوں کے معمولات زندگی متاثر ہوتے یہ جلسے چوک یادگار پشاور‘ لیاقت باغ پنڈی‘موچی گیٹ لاہور وغیرہ جیسے مرکزی مقامات پر منعقد ہوتے۔چین غالباً دنیا کا واحد کمیونسٹ ملک ہے کہ جس نے معیشت کے بارے میں کارل مارکس کے فلسفے کو اپنے ہاں سنجیدگی سے اپنا کر اسے من عن ملک میں نافذکیا ہے اور پوری چینی قوم اس معاشی فلسفے کے ثمرات سے آج فائدہ اٹھا رہی ہے‘وہاں مٹھی بھر اشرافیہ عام آدمی کا معا شی استحصال کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی‘یہ کارل مارکس کے فلسفہ معیشت پر کاربند رہنے کی وجہ ہے کہ ماضی قریب میں چین کے اندر کئی کروڑ لوگ جو غربت کی لکیر سے نیچے رہتے تھے وہ اس لکیر کو پھلانگ کر اوپر آ چکے ہیں‘ اس قسم کی مثال ہمیں تاریخ میں اور کہیں نہیں ملتی‘ چین کے معاشی استحکام کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس کے حکمرانوں نے چین کو عالمی تنازعات میں اپنے ملک کو پھنسانے سے احتراز کیا اور اس طرح اپنے ملک کی تمام تر توانائی ملک کی ترقی کی طرف مبذول رکھی‘ اس کے علاوہ اس کی قیادت نے پہلے خود مالی دیانتداری سادگی اور قناعت کا مظاہرہ کر کے عوام کے لئے ایک اچھی مثال قائم کی اور بعد میں سرکاری ڈھانچے میں کرپٹ عناصر کو جڑ سے اکھاڑ کر باہر پھینکا۔