جاپان کی ترقی کا راز

روزنامہ آج میں شائع ہونے والے بعض کتابوں سے اقتباس کیلئے قارئین کی جانب سے دوبارہ اشاعت کا کہا جاتا ہے‘ قارئین کی پسند کو مدنظر رکھتے ہوئے آج کا شائع ہونے والا اقتباس مشہور مصنف اور براڈکاسٹر رضا علی عابدی کے نشر پروگرام کا منتخب حصہ ہے جو کہ قارئین کیلئے پیش خدمت ہے۔
کسی بھی ادارے میں ہڑتال معمولات کو متاثر کرکے رکھ دیتی ہے معروف براڈ کاسٹر آغا ناصر اپنی یاداشتوں میں ایک ہڑتال کا ذکر کرتے ہیں جو منفرد تھی۔وہ لکھتے ہیں کہ جاپان میں قیام کے دوران ہمارے دو بڑے مسئلے تھے‘ ایک کھانا اور دوسرا زبان‘ جاپانی کھانا ہمیں ایک آنکھ نہیں بھایا‘ ہر چیز اس قد کچی (raw) ہوتی تھی کہ حلق سے نوالہ اتارنا مشکل ہوتا تھا‘ یہاں تک کہ صبح کے ناشتہ میں بھی آملیٹ یا ابلا ہوا انڈا بالکل کچا اور بدمزہ معلوم ہوتا۔ اقیک رات جب کسی پارٹی سے میں دیر گئے واپس ہوا تو میرے کمرے کے فرش پر ایک لفافہ پڑا تھا جس پر جلی حروف میں لکھا تھا ”ضروری اطلاع“ میں نے لفافہ کھولا تو اس میں ا یک مختصر سا خط تھا جسے پڑھ کر میں بہت حیران ہوا‘یہ کیفے ٹیریا میں کام کرنے والے کارکنوں کی طرف سے تھاکہ ”کل سے ملازمین کی یونین نے ہڑتال کرنیکا فیصلہ کیا ہے چونکہ انتظامیہ نے ہمارے مطالبات ماننے سے انکار کردیا ہے‘ ہڑتال کی وجہ سے کینٹین بند رہے گی مگر مہمانوں کی سہولت کے لئے ورکرز یونین نے یہ فیصلہ کیا کہ ہم کل صبح سے ایک گھنٹہ پہلے آئیں گے اور مہمانوں کے ناشتہ کا حسب معمول انتظام کریں گے اس زحمت کے لئے ہم آپ سے معذرت خواہ ہیں۔لنچ کا وقت آیا تو ورکرز یونین کی طرح TIC کی انتظامیہ نے بھی اپنا فرض ادا کیا انہوں نے باہر کے کسی ریستوران سے سستے لنچ باکسز منگوائے تاکہ کیفے ٹیریا بند ہونے کی وجہ سے مہمانوں کو لنچ کے لئے سنٹر سے باہر جانے کی زحمت گوارا نہ کرنا پڑے‘ میں نے دوپہر کھانے کے وقفہ میں انتظامیہ کے ایک عہدے دار سے دریافت کیا کہ قصہ کیا ہے تو اس نے بڑے پرسکون انداز میں جذباتی ہوئے بغیر جواب دیا ”ورکرز کے بیشتر مطالبات ناجائز ہیں‘ مذاکرات جاری ہیں اور امید ہے شام تک کوئی فیصلہ ہوجائے گا“ اور ایسا ہی ہوا‘رات کے کھانے سے پہلے جب ٹی وی لاونج کی چہل پہل شروع ہوئی تو ساری لڑکیاں ہنستی مسکراتی‘ اپنے اپنے کام پر لوٹ آئیں‘ ہڑتال ختم ہوچکی تھی۔آخری ایک ہفتہ جاپان کی سیر کیلئے مختص تھا‘ ہماری پہلی منزل کو بے شہر تھا‘ سرسبزپہاڑوں اور گھنے جنگلات سے گھرا ہوا یہ شہر جاپان کے خوبصورت ترین شہروں میں شمار ہوتا ہے کو بے کے بعد ہم بذریعہ ”ناگویا“ گئے یہ جاپان کا چوتھا بڑا شہر ہے‘ ہماری اگلی منزل نارا شہر تھا‘نارا جاپان کا ایک قدیمی شہر ہے 710ء میں یہ شہر ملک کا دارالحکومت بنا‘ اس دور میں جاپان بدھ مت کے زیر اثر تھا اور اس کے فروغ میں نارا کا بڑا حصہ ہے شہر میں لاتعداد تاریخی یادگاریں موجود ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ شہر جاپان کا بڑا اہم ثقافتی اور مذہبی مرکز رہا ہوگا۔ ایک ہفتہ کی سیر و تفریح کا سفر ”اوساکا“ پر جا کر ختم ہواتھا‘ اوساکا جاپان کا قدیم دارالحکومت ہے اور تقریباً وسط میں ہے‘ لگتا ہے جیسے شہر نے خلیج اوساکا کو اپنی بانہوں میں لیا ہوا ہے‘ ایک جانب سمندر ہے اور بقیہ تین اطراف سرسبز‘ ہرے بھرے پہاڑہیں۔سیاحت سے اب طبیعت سیر ہوچکی تھی اور سب کو اپنے اپنے ملکوں کوواپس جانے کی بے چینی تھی۔“اس منتخب تحریر کا حاصل مطالعہ جہاں مصنف کا گہرا مشاہدہ اور منظر بیان کرنے کا منفرد انداز ہے وہاں اس حقیقت کا بھی اظہار ہے کہ کسی بھی معاشرے میں بنیادی کردار وہاں کے رہنے والوں کے طرز عمل کا ہے جس کا اظہار تمام شعبہ ہائے زندگی میں نظر آتا ہے جاپان میں ہڑتال کا جو نقشہ آغاناصر نے پیش کیا ہے اس کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا مشکل نہیں کہ جاپان کے لوگ ہر معاملے میں کام کو اہمیت دیتے ہیں اور کام میں رخنہ ڈالنے کو ہڑتال کا نام نہیں دیتے بلکہ اپنے مطالبات کو سامنے لانا ہی ان کا مقصد تھا جس کا اظہار انہوں نے منفرد انداز میں کیا یہی جاپان کی ترقی کا راز ہے کہ وہاں پر وقت ضائع کرنے کو برا سمجھا جاتا ہے اور وقت کی قدر کرتے ہوئے ہر لحظے سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔