شنگھائی میں دنیا کی تیز ترین لفٹ ہے جس کی رفتار 73.8 کلومیٹر فی گھنٹہ اور شنگھائی ہی میں دنیا کی سب سے بڑی سنگل ڈش ریڈیو ٹیلی سکوپ بھی ہے۔ عوامی جمہوریہ چین کا شہر ”شنگھائی“ جیسا شہر دنیا میں کہیں بھی نہیں ہے۔ شنگھائی دریائے یانگزی کے کنارے پر واقع ہے۔ شنگھائی کا موسم سرما ہلکا ہوتا ہے جبکہ موسم گرما شدیدگرم اور گیلا ہوتا ہے۔ شنگھائی حیاتیاتی تنوع کا مرکز ہے، جہاں پرندوں کی 290 اقسام پائی جاتی ہیں۔ شنگھائی کا جغرافیہ، آب و ہوا اور ماحولیات کسی دوسرے شہر میں نہیں ہے۔ شنگھائی جیسا کوئی شہر نہیں۔ شنگھائی میں دنیا کی تیز ترین لفٹ ہے جو 73.8 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتی ہے۔ شنگھائی میں سب سے بڑی سنگل ڈش ریڈیو ٹیلی سکوپ ہے۔ شنگھائی میں مصروف ترین کنٹینر پورٹ ہے۔ شنگھائی میں 508 اسٹیشنوں کے ساتھ سب سے طویل میٹرو سسٹم 802 کلومیٹر ہے۔ شنگھائی میں سب سے اونچا خلائی مشاہدے کا مقام (ڈیک) ہے۔ شنگھائی میں سب سے بڑا انڈور اس کی ریزورٹ ہے۔ شنگھائی میں سب سے جدید خود مختار ڈرائیونگ زون ہے۔ شنگھائی میں سب سے بڑا سیارہ گھر ہے۔ شنگھائی میں سب سے طویل سمندری پل ہے۔ وہ لوگ جنہوں نے شنگھائی کو عالمی شہر میں تبدیل کیا وہ اپنی محنت اور جرأت مندانہ اقدامات کی وجہ سے داد کے مستحق ہیں۔ ان کے دور اندیش عزائم دنیا کی تیز ترین لفٹ سے لے کر سب سے اونچے مشاہدے کے ڈیک تک عالمی سطح پر مقبولیت رکھتے ہیں۔ ساڑھے بتیس کلومیٹر طویل ڈونگہائی پل میں انجینئرنگ کی مہارت چمک رہی ہے۔ مشترکہ کارکردگی یانگشان پورٹ کے لئے دس ہزار کارکنوں کو مربوط کرتی ہے، جو اُنچاس ملین ٹی ای یو کو سنبھالتی ہے۔ تکنیکی جدت اور مستقبل پر مبنی عملیت پسندی کے بانی جیاڈنگ کا چھپن مربع کلومیٹر کا خود مختار ڈرائیونگ زون بھی شنگھائی ہی میں ہے۔
شنگھائی میں پرندوں کی 290 اقسام کو محفوظ رکھنا ماحولیات کے تحفظ پر توجہ کی عکاسی کرتا ہے۔ 632 میٹر، ٹائیفون پروف شنگھائی ٹاور کو ڈیزائن کرنا اور اُسے لچکدار رکھنا تاکہ موسموں کا مقابلہ کر سکے قطعی آسان نہیں ہے۔ 38 ہزار مربع میٹر پر محیط شنگھائی فلکیات میوزیم کی تعمیر چین کے فلکیاتی ورثے کا حصہ ہے۔ 802 کلومیٹر شنگھائی میٹرو کی تعمیر عالمی مسابقت کا مظہر ہے۔ نوے ہزار مربع میٹر ونٹا اسٹار اسکی ریزورٹ کی تعمیر افرادی قوت کی لگن کی مثال ہے۔ دیکھیں کہ کس طرح وزارت عوامی سلامتی (ایم پی ایس) ٹریفک، ماحولیاتی اور شہری پالیسیوں کو نافذ کرنے کے لئے رنگین کوڈڈ پلیٹوں کا استعمال کرتی ہے اور کس قدر توجہ سے گاڑیوں کی اقسام، ملکیت اور توانائی کے ذرائع کے لحاظ سے اُن کی درجہ بندی کی جاتی ہے۔ چین کی بے مثال ترقی کا تصور کریں کہ پینتالیس کلومیٹر ہائی اسپیڈ ریل نیٹ ورک (ایچ ایس آر)، جو یورپ کے گیارہ ہزار دوسوتین کلومیٹر سے زیادہ ہے۔ چین کے پاس دنیا کے دس طویل ترین پلوں میں سے پانچ ہیں جبکہ لاس اینجلس کی گنجان آباد بندرگاہ، جس میں پرانی کرینیں ہیں۔ ٹیکنالوجی کے شعبے میں چین کے 3.20 ملین فائیو جی بیس اسٹیشنز جو عالمی تعداد کا ساٹھ فیصد ہیں اور ڈھائی لاکھ مصنوعی ذہانت کے پیٹنٹ (دوہزارچوبیس) بائیڈو اپولو اور ہواوے کی قیادت میں یورپ کے چار لاکھ اسٹیشنوں اور امریکہ کیپانچ لاکھ اسٹیشنوں سے آگے ہیں۔
چین بارہ سو گیگاواٹ شمسی اور ہوا سے بجلی پیدا کرنے والی توانائی کا ملک ہے جو اِن ذرائع سے حاصل ہونے والی عالمی صلاحیت کا پچاس فیصد ہے۔ اقتصادی طور پر چین کے 1.5 ملین سالانہ ایس ٹی ای ایم گریجویٹس اور 50فیصد عالمی یونیکارن یورپ کی منقسم مارکیٹ کے برعکس متحد مارکیٹ میں پھلتے پھولتے ہیں۔ چین میں پانچ سو سمارٹ سٹیز ہیں۔ جو دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے زیادہ ہیں۔ پاکستان کے لئے چین کا دو طرفہ ماڈل یعنی میرٹ پر مبنی قیادت اور متحد سیاسی ویژن عمل کی ترغیب ہے۔ شنگھائی کی تقلید کرتے ہوئے پاکستان اپنے شہروں کو تبدیل کر سکتا ہے، اسٹیم ٹیلنٹ کو بروئے کار لا سکتا ہے اور سی پیک کو آگے بڑھا سکتا ہے اور ایک ایسے مستقبل کی تعمیر کر سکتا ہے جہاں کراچی شنگھائی جیسی شہری سہولیات کا مقابلہ کرے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)