خیبرپختونخوا کے صدر مقام کی تعمیر و ترقی‘ شہر کی عظمت رفتہ بحال کرنے‘ اسے پھولوں کا شہر بنانے‘یہاں تمام بنیادی سہولیات فراہم کرنے‘ شہر کی تاریخی حیثیت اجاگر کرنے‘ ثقافتی ورثے کے تحفظ سمیت مختلف سیکٹرز میں اصلاح احوال کیلئے درجنوں ااعلانات ہو چکے ہیں‘ ان سب خوش کن اعلانات کی موجودگی میں شہر کی حالت جوں کی توں سب کے سامنے ہے‘ پشاور کے دیگر درجنوں مسائل کیساتھ یہاں بدترین ٹریفک جام کے باعث لوگ اذیت کا شکار ہیں‘ شہر کی سڑکوں پر گھنٹوں ٹریفک جام رہنا معمول بن چکا ہے‘ سست رفتاری اپنی جگہ مسئلہ ہے ٹریفک کے اس اژدھام میں مریضوں کو علاج گاہوں تک پہنچانا بھی مشکل ہوچکا ہے‘ اندرون شہر صوبے کی سب سے بڑی علاج گاہ لیڈی ریڈنگ ہسپتال تک پہنچنا انتہائی دشوار ہے دوپہر کے وقت شہر کی غیر اعلانیہ میڈیکل سٹی ڈبگری گارڈن تک رسائی کے سارے راستوں پر ٹریفک کا بہاؤ بڑھ جانے پر صورتحال تشویشناک ہو جاتی ہے‘ آبادی میں اضافہ‘ شہروں کی جانب نقل مکانی کے رجحان اور لاکھوں افغان مہاجرین کی طویل عرصے سے جاری میزبانی نے شہر کے انفراسٹرکچر پر لوڈ میں بے پناہ اضافہ کیا ہے اس کے ساتھ چشم پوشی اس حقیقت سے بھی ممکن نہیں کہ ناقص منصوبہ بندی‘ اربن پلاننگ کے کام کو جدید تکنیکی مہارت سے آراستہ نہ کرنا‘ منصوبہ بندی اور فیصلہ سازی میں برسرزمین حقائق اور آنے والے وقت کی ضروریات کو مدنظرنہ رکھنا بھی درپیش صورتحال کی وجوہات کا حصہ ہے‘ ٹریفک کے کیس میں اصلاح احوال کیلئے اقدامات تو اپنی جگہ ابھی صرف وجوہات سامنے آئی ہیں‘ اس حوالے سے مہیا تفصیلات کے مطابق32پوائنٹس پر مسائل کی نشاندہی کی گئی ہے جبکہ ان مسائل کی روشنی میں صورتحال میں میں بہتری کیلئے اقدامات تجویز کئے گئے ہیں‘ ان اقدامات میں کہیں سے بریکر ختم کرنے کا کہا گیا ہے تو کہیں ٹائر برسٹر ہٹانے کی تجویز دی گئی ہے‘ دی جانے والی تجاویز میں شہر کے5مقامات پر سڑکوں کی توسیع جبکہ7پوائنٹس پر اوورہیڈ اور انڈر پاسز بنانے کا کہا گیا ہے‘ تجاویز پر مشتمل فہرست میں رش والے7مقامات پر ملٹی سٹوری پارکنگ پلازہ تعمیر کرنے کی سفارش بھی کی گئی ہے پارکنگ پلازہ‘ اوورہیڈ پل اور انڈر پاسز کی تعمیر کتنا وقت لے گی‘ منظوری اور فنڈز کے اجراء کے بعد تعمیراتی مراحل مکمل ہونے پر یہ منصوبے برسوں میں مکمل ہونے ہیں‘ ٹریفک مسائل کی وجوہات معلوم کرنا اور ان کے حل کے لئے تجاویز پیش کرنا سب قابل اطمینان اور اس حوالے سے احساس و ادراک کا عکاس ہے تاہم بڑے بڑے منصوبوں کی تکمیل کا انتظار کرنے کی بجائے ضرورت فوری نوعیت کے اقدامات پر فوری عمل درآمد یقینی بنانے کی ہے اس میں سارے سٹیک ہولڈرز کو اکٹھا کرکے لائحہ عمل ترتیب دینا ہوگا جس میں ارضی حقائق کا ادراک بھی رکھا جائے اور ٹریفک انجینئرنگ کی تکنیکی مہارت بھی بروئے کار لائی جائے۔