یہ بات یقینا قابل تشویش ہے کہ وطن عزیز میں بھاری قرضوں پر ادا کئے جانیوالے سود کا حجم وفاقی حکومت کی خالص آمدن سے205ارب روپے زیاد ہ ہے نجی ٹی وی کی جمعہ کے روز رپورٹ کے مطابق آئی ایم ایف کو بتایا گیا ہے کہ موجودہ مالی سال کے پہلے9ماہ میں اندرونی اور بیرونی قرضوں پر5 ہزار518 ارب روپے سود ادا کیا گیا دوسری جانب اعدادوشمار بتا رہے ہیں کہ جولائی تا مارچ9 ماہ میں وفاقی حکومت کی خالص آمدن5 ہزار313 ارب روپے ریکارڈ ہوئی‘ اقتصادی صورتحال کے تناظر میں انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کی جانب سے پاکستان کو اخراجات میں کمی کرنے کا کہا گیا ہے‘ اس وقت اگلے مالی سال میں قرضوں پر سود9ہزار787 ارب روپے تک جانے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے‘ اس وقت وطن عزیز کا سیاسی منظرنامہ انتہائی گرماگرمی کا شکار ہے جبکہ دوسری جانب اگلے مالی سال کیلئے قومی بجٹ کی تیاری کا کام زور وشور سے جاری ہے‘ اس سب کیساتھ آئی ایم ایف سے قرض پروگرام پر بات چیت بھی ہو رہی ہے یہ سب اپنی جگہ‘ اس حقیقت سے انحراف کی گنجائش بالکل بھی نہیں کہ عالمی اقتصادی منظرنامے کی مشکلات ہوں یا پھر ملک کو معیشت کے حوالے سے چیلنجوں کا سامنا‘ پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافہ ہو یا پھر ڈالر کی بڑھتی قدر‘ قرضوں کے حصول کیلئے قرض دینے والوں کی شرائط پر عملدرآمد ہو یا ٹیکسوں کے نظام میں ردوبدل‘ اس کا اثر ملک کے عام شہری پر گرانی میں اضافے کی صورت پڑتا ہے اس وقت ملک کاعام شہری گرانی کے باعث سخت مشکلات کا سامناکر رہا ہے بیروزگاری توانائی بحران سے پیداصورتحال اور بنیادی شہری سہولیات کیساتھ سروسز کے شعبوں میں خدمات نہ ملنے سے متعلق شکایات اپنی جگہ ہیں‘ اسوقت درپیش صورتحال کا تقاضہ ہے کہ عام شہری کو فوری ریلیف کے طورپر مارکیٹ کنٹرول کا ایسا محفوظ نظام دیا جائے کہ جس میں کم از کم مصنوعی گرانی ذخیرہ اندوزی اور ملاوٹ کا خاتمہ ممکن ہو‘ اس مقصد کیلئے مرکز اور صوبوں کے تمام سٹیک ہولڈر اداروں کو یکجا کرکے موثر حکمت عملی ترتیب دی جا سکتی ہے اس پلاننگ میں ماضی کے آزمودہ سسٹم کو بھی دیکھا جا سکتا ہے جس کو جدید دور کی ضروریات کے ہم آہنگ کرکے آپریشنل کردیا جائے یہ نظام پہلے مجسٹریسی سسٹم کہلاتاتھا بعد میں اسکے باوجود مارکیٹ کنٹرول سے متعلق عوامی شکایات میں اضافہ ہی ہوا ہے اس نظام کو دوبارہ آپریشنل کرنے کی باتیں نتیجہ خیز مرحلہ میں داخل نہ ہو سکیں درپیش حالات میں ضرورت ملک کو اقتصادی شعبے میں مستحکم کرنے کیلئے موثر اور دیرپا حکمت عملی کی بھی ہے اس حکمت عملی کیلئے ضرورت وسیع مشاورت کی بھی ہے اسکے ساتھ پوری پلاننگ کوتکنیکی مہارت سے آراستہ کرنا بھی ناگزیر ہے ضروری یہ بھی ہے کہ یہ ساری منصوبہ بندی حکومتوں کی تبدیلیوں سے متاثر نہ ہو پائے ساتھ ہی مانیٹرنگ کا خصوصی انتظام بھی کیا جائے‘اقتصادی اشاریوں میں بہتری ہو یا زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ جائیں ڈالر سستا ہو یا پٹرولیم مصنوعات کے نرخ کم ہوں کسی بھی ریاست میں عام شہری کیلئے یہ سب بے معنی ہوتا ہے اس وقت تک کہ جب اسے خود ریلیف کا احساس نہ ہو۔