پنجاب اسمبلی نے اپوزیشن اور صحافیوں کے احتجاج کے باوجود ہتک عزت بل 2024 منظور کر لیا جبکہ اپوزیشن نے بل کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے بل کی کاپیاں پھاڑ دیں اور صحافیوں نے ملک گیر احتجاج کا اعلان کردیا۔
اسپیکر ملک احمد خان کی زیر صدارت پنجاب اسمبلی کا اجلاس 2 گھنٹے 24 منٹ کی تاخیر سے شروع ہوا۔
ہتک عزت بل 2024 ایوان میں پیش
اجلاس میں لوکل گورنمنٹ کے سوالات اور توجہ دلاؤ نوٹس کے بعد وزیر پارلیمانی امور مجتبیٰ شجاع الرحمان نے ہتک عزت بل 2024 ایوان میں پیش کیا، جس پر صحافیوں نے پریس گیلری سے احتجاجا واک آؤٹ کیا جبکہ اپوزیشن نے بھی اسے مسترد کردیا۔
دوسری جانب حکومت نے صحافتی تنظیموں کی جانب سے بل مؤخر کرنے کی تجویز مسترد کردی جبکہ صحافتی تنظیموں نے آج وزیر اطلاعات پنجاب سے ملاقات میں بل کچھ روز مؤخر کرنے کا مطالبہ کیا تھا، صحافتی تنظیمیں بل سے متعلق اپنی تجاویز دینا چاہتی ہیں۔
اپوزیشن نے بھی ہتک عزت بل کو مسترد کردیا
اپوزیشن نے بھی ہتک عزت بل کو مسترد کردیا، اپوزیشن نے بل سے متعلق 10 سے زائد ترامیم پنجاب اسمبلی میں جمع کرائیں۔
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب خالد اسحاق نے بل کے اہم نکات بیان کیے اور اپوزیشن کے اعتراضات کا جواب دیا۔
بل پر بحث کے دوران اپوزیشن کی تجویز کردہ تمام ترامیم مسترد کردی گئیں جبکہ بل اکثریت رائے سے منظور کرلیا گیا۔
اپوزیشن کا بل کیخلاف احتجاج، بل کی کاپیاں پھاڑ دیں
اپوزیشن نے بل کو کالا قانون قرار دیتے ہوئے بل کے خلاف احتجاج کیا اور بل کی کاپیاں پھاڑ دیں۔
اس کے علاوہ صحافیوں نے بھی پریس گیلری سے واک آؤٹ کیا اور بل کے خلاف اسمبلی سیڑھیوں پر احتجاج کیا اور ملک گیر احتجاج کی کال دے دی۔
ہتک عزت قانون پر ہونے والے مذاکرات ناکام
دریں اثنا حکومتی وزرا اور صحافیوں کے درمیان ہتک عزت قانون پر ہونے والے مذاکرات ناکام ہوگئے، 4 صوبائی وزرا بلال یاسین، شیر علی گرچانی، عاشق حسین کرمانی اور ذیشان رفیق مذاکرات کے لیے گئے تھے جنہیں صدر پریس کلب ارشد انصاری کاظم خان سمیت دیگر صحافیوں نے ہت عزت بل پر اپنے تخفظات سے اگاہ کیا۔
ارشد انصاری کا کہنا تھا کہ اسپیکر پنجاب اسمبلی اور صوبائی وزیر اطلاعات سے تمام شقوں پر بات ہوئی، اسمبلی میں مذاکرات کے باوجود بل پیش کردیا گیا جو صحافی کیمونٹی کے ساتھ زیادتی ہے
حکومت ہتک عزت بل کو کچھ روز کیلئے موخر کردے تو ہم بھی اپنا احتجاج موخر کردیں گے، صوبائی وزراء ناکام مذاکرات کے بعد واپس لوٹ گئے۔
مذاکرات کے بعد پیٹھ میں چُھرا گھونپا گیا، ہر فورم پر احتجاج کریں گے، صحافی رہنما
اسمبلی کے باہر میڈیا سے گفتگو میں صحافتی تنظیموں کے عہدیداران نے بل کو صحافتی برادری پر شب خون قرار دیا۔
صحافی رہنماؤں نے کہا کہ مذاکرات کے بعد پیٹھ میں چُھرا گھونپا گیا، ہر فورم پر احتجاج کریں گے۔
اپوزیشن لیڈر احمد خان بھچر کا کہنا تھا کہ ہتک عزت بل 2024 کالا قانون ہے اس کا حصہ نہیں بن سکتے۔
ہتک عزت بل کے مسودے پر انسانی حقوق کمیشن پاکستان نے بھی اظہارِ تشویش کرتے ہوئےکہا کہ بل آزادی اظہار کا گلا گھونٹ رہا ہے۔
ہتک عزت بل 2024 کیا ہے؟
ہتک عزت بل 2024 بل کا اطلاق پرنٹ، الیکٹرونک اور سوشل میڈیا پر ہوگا، پھیلائی جانے والی جھوٹی،غیرحقیقی خبروں پر ہتک عزت کا کیس ہو سکے گا۔
یوٹیوب اور سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلائی جانے والی جعلی خبروں پر بھی بل کا اطلاق ہوگا، ذاتی زندگی،عوامی مقام کو نقصان پہنچانے کے لیے پھیلائی جانے والی خبروں پر بھی کارروائی ہو گی۔
ہتک عزت کےکیسز کے لیے ٹربیونل قائم ہوں گے جو کہ 6 ماہ میں فیصلہ کرنے کے پابند ہوں گے۔
ہتک عزت بل کے تحت 30 لاکھ روپے کا ہرجانہ ہوگا، آئینی عہدوں پر موجود شخصیات کے خلاف الزام پر ہائی کورٹ بینچ کیس سن سکیں گے، خواتین اور خواجہ سراؤں کو قانونی معاونت کے لیے حکومتی لیگل ٹیم کی سہولت میسر ہوگی۔
پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی شہادت پر متفقہ تعزیتی ریفرنس کی قرارداد بھی منظور کی گئی۔
ایجنڈا مکمل ہونے پر اسپیکر ملک احمد خان نے پنجاب اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت تک ملتوی کردیا۔