خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق وفاقی حکومت نے آئندہ مالی سال کیلئے پیش ہونیوالے بجٹ میں سخت معاشی پالیسیاں جاری رکھنے کافیصلہ کیا ہے‘ اس بجٹ کی تیاری میں عالمی مالیاتی فنڈ کی مشاورت بھی شامل ہوگی‘ ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق اس حوالے سے آئی ایم ایف کو تحریری یقین دہانی کرادی گئی ہے قومی بجٹ میں پرائمری سرپلس مجموعی قومی پیداوار کے ایک فیصد تک رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جبکہ مختلف ٹیکسوں میں ردوبدل بھی کیا جا رہا ہے‘ حکومت کی جانب سے عالمی مالیاتی ادارے کے دیئے جانے والے پلان پر مکمل عملدرآمد کی یقین دہانی بھی کرائی جارہی ہے‘ عالمی مالیاتی ادارے کیساتھ جو اہم نکات شیئر کئے گئے ہیں ان میں گیس سیکٹر کا گردشی قرضہ کم کرنے کیلئے تین پلان شامل ہیں بجلی کے ٹیرف میں 8 روپے یونٹ کمی کا فارمولہ بھی دیا گیا ہے‘ قومی بجٹ سے پہلے مختلف امکانات پر مشتمل خبریں معمول کا حصہ ہیں تاہم اگلے مالی سال کیلئے میزانیہ ایسے وقت میں پیش ہونے جا رہاہے کہ جب ملک کی معیشت مشکلات کے گرداب میں ہے قرضوں کے انبار کیساتھ مزید قرضے اٹھائے جارہے ہیں اور قرض دینے والوں کے مطالبات کی فہرست طویل سے طویل تر ہوتی چلی جارہی ہے قومی بجٹ کے حوالے سے ملک کا عام شہری درپیش منظرنامے میں ریلیف کا منتظر دکھائی دیتا ہے جبکہ درپیش منظرنامے میں اکانومی کو مشکلات میں دیکھتے ہوئے اسے مختلف خدشات بھی ہیں ایسے میں کم از کم کے زمرے میں ضروری ہے کہ عوام کیلئے گرانی کے گراف میں کمی لائی جائے ساتھ ہی منڈی سے مصنوعی مہنگائی‘ مضر صحت ملاوٹ اور ذخیرہ اندوزی سے لوگوں کو چھٹکارہ دلایا جائے‘ اسکے ساتھ میونسپل سروسز کی فراہمی کسی بڑے فنڈز کا انتظار کئے بغیر پہلے مرحلے میں صرف کڑی نگرانی کے نظام سے بہتر بنائی جائے اسی طرح علاج کیلئے مہیا انفراسٹرکچر دیگر وسائل اور افرادی قوت کا درست استعمال یقینی بنایا جائے اس سب کیلئے ضرورت مربوط حکمت عملی کی ہے جو کہ ارضی حقائق کی روشنی میں تکنیکی مہارت سے آراستہ ہو‘ ضرورت غیر ضروری اخراجات روکنے کی بھی ہے جبکہ ضروری یہ بھی ہے کہ قومی خزانے کے ضیاع کو روکنے کیلئے بدعنوانی پر بھی مکمل قابو پایا جائے‘ مدنظر رکھنا ہوگا کہ اس وقت ملک کا عام شہری سخت مشکلات سے دوچار ہے گرانی کیساتھ بنیادی سہولیات کا نہ ملنا بھاری یوٹیلٹی بل ادا کرنے کے باوجود بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ بچوں کو مہنگے اداروں میں تعلیم دلوانے کے باوجود روزگار کے مواقع نہ ملنا یہ سب متقاضی ہے کہ اب مزید وقت ضائع کرنے کی بجائے اصلاح احوال کی جانب بڑھا جائے۔