تنگ آمد بجنگ آمد

گرمی کی شدت میں اضافے کیساتھ بجلی کی لوڈشیڈنگ اذیت ناک صورت اختیار کرچکی ہے‘ منگل کے روز پشاور میں صارفین مشتعل ہو کر سڑکوں پر نکل آئے‘ احتجاج کے دوران موٹر وے بند ہونے پر گاڑیوں کی قطاریں لگ گئیں‘ ملک کے دیگر شہروں میں بھی لوڈشیڈنگ کے باعث عوامی احتجاج ریکارڈ ہو رہا ہے‘ وطن عزیز میں طلب کے مقابلے میں بجلی کی کم رسد ایک حقیقت ہے‘ اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے زمینی حقائق کومدنظر رکھتے ہوئے تکنیکی مہارت سے آراستہ لوڈ مینجمنٹ پلان دیا جاسکتاہے اس کے برعکس بجلی کی قلت اپنی جگہ‘ بجلی چوری اور غیر ضروری استعمال کا سلسلہ دھڑلے سے جاری ہے‘ متعلقہ دفاتر ہر سال کی طرح صرف اعدادوشمار جاری کرنے پر ہی اکتفا کئے ہوئے ہیں ان اعدادوشمار میں یہ بتایا جاتا ہے کہ ملک میں بجلی کی پیداوار ضرورت سے اتنے میگاواٹ کم ہے یہاں سوال یہی رہتا ہے کہ کیا اتنے بڑے سیٹ اپ کا  مقصد صرف اتنا ہی ہے کہ روزانہ یہ بات نوٹ کرکے بتا دے کہ بجلی کی پیداوار کتنی ہے اور خرچہ کیا ہے‘ لائن لاسز کا ذمہ دار کون ہے اور کون نہیں کا سوال اپنی جگہ‘ بجلی کا بل جمع کرانے والوں کے جرم کی سزا ان شہریوں کو دینا درست ہے کہ جو اپنے بچوں کا پیٹ کاٹ کر بینکوں کے سامنے لگی لمبی قطاروں میں باری آنے پر اپنا بل بروقت ادا کرتے ہیں‘ بجلی کی قلت اپنی جگہ‘ سوال ترسیل کے نظام پر یہ بھی ہے کہ معمولی آندھی اور بارش کی صورت میں معطل ہونے والی بجلی کی سپلائی کئی کئی گھنٹوں بعد بحال ہوتی ہے بجلی ٹرانسفارمرز پر ضرورت سے زیادہ لوڈ ڈالے جانا اپنی جگہ مسئلہ ہے اور ٹرانسفارمر خراب ہونے پر صارفین ہی سے کہا جاتا ہے کہ مرمت کا انتظام کریں اووربلنگ اپنی جگہ ہے جس کیلئے غلط ریڈنگ اور غلط بل کو درست کرانے کیلئے صارف کو کئی کئی مرتبہ دفاتر کے چکر کاٹنا پڑتے ہیں‘صارفین کی مشکلات میں لائنوں کی مرمت کے نام پر گھنٹوں بجلی کی بندش بھی شامل ہے وطن عزیز میں گرمی کا موسم اچانک نہیں آتا گرمی اور سردی کے مہینے تقسیم ہیں موسمیاتی تبدیلیوں کے چند اثرات کو چھوڑ کر گرمی کی شدت کا موسم معلوم ہے اس کے باوجود مرمت کا کام مئی جون جیسے مہینوں میں ہی کیا جاتا ہے‘ اس مقصد کیلئے پرمٹ حاصل کرلیا جاتا ہے اور روزانہ کی بنیاد پر آٹھ آٹھ گھنٹے بجلی بند رکھی جاتی ہے اگر یہ مرمت سردی کے موسم میں ہو جائے تو صارفین کو اتنی مشکلات کا سامنا نہ ہو‘ مسئلہ صرف کھپت کے مقابلے میں کم پیداوار کا نہیں مسئلہ گورننس کا بھی ہے دوسرا اصلاح احوال کی جانب بڑھنے کیلئے سنجیدہ کوششوں سے گریز کا بھی ہے‘کیا ہی بہتر ہو کہ بعد ازخرابی بسیار سہی اب اگر اصلاح احوال کی جانب بڑھا جائے۔