تشویشناک اعدادوشمار

سیاسی تناؤ‘ گرما گرم بیانات‘ ایک دوسرے کے خلاف الفاظ کی گولہ باری اور الزامات کی بھرمار کیساتھ بجٹ کی تیاری کا اہم کام بھی جاری ہے‘ قرضے کے حصول کیلئے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کی شرائط تسلیم ہونے کا سلسلہ بھی چل رہاہے‘ ان شرائط کا سارا بوجھ عوام پر ڈالے جانے کا خدشہ بھی موجود ہے‘ اس سب کیساتھ ملک کے مجموعی اقتصادی منظرنامے سے متعلق اعدادوشمار تشویشناک صورت اختیار کرتے چلے جارہے ہیں‘ ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق پاکستان کے مقامی قرضوں میں 4ہزار 622 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے‘اس حوالے سے ذمہ دار دفاتر کے مطابق مارچ2024ء تک مقامی قرض بڑھ کر43 ہزار432 ارب روپے ہوگیا ہے اس طرح سے دیکھا جائے تو ملک پر قرضوں کا بوجھ ساڑھے  6 فیصد بڑھ گیا ہے جس کا حجم61 ہزار ارب سے تجاوز کر چکا ہے‘ جاری مالی سال کے دوران حکومت کے ذمے بیرونی واجبات6 فیصد بڑھ کر3 ہزار284 ارب روپے ہوگئے ہیں‘ ملک کے میدان سیاست کی گرما گرمی میں اگر اقتصادی اشاریوں کی تشویشناک حالت سے متعلق بات کی جائے تو زیادہ توجہ اصلاح احوال کی بجائے ایک دوسرے کو اس منظرنامے کا ذمہ دار قرار دینے پر مبذول ہو جاتی ہے مسئلے کی شدت کو دیکھتے ہوئے اس کا حل ایک اورقرضے کے حصول کو قرار دے دیا جاتا ہے اس قرضے کے ساتھ نہ صرف واجبات کے حجم میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ اس قرض کیلئے پیش ہونے والی شرائط کا بوجھ عام شہری پر مزید مہنگائی کی صورت میں گرتا ہے‘ ملکی اقتصادیات سے متعلق تشویشناک اعدادوشمار‘ قرضوں کے بڑھتے حجم اور اس صورتحال کے تناظر میں عوام پر مہنگائی کے بڑھتے بوجھ کا تقاضہ ہے کہ اب اصلاح احوال کیلئے اقدامات کا آغاز ہونا چاہئے‘ مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ اب بھی اس معاملے میں تاخیر ہوتی رہی تو آنے والے وقت میں یہ سب ناقابل برداشت صورت اختیار کرجائیگا۔
رپورٹ طلب کرنے پر اکتفا؟
وطن عزیز میں متعدد افسوسناک واقعات کے بعد رپورٹ طلب کرنا معمول کا حصہ بن چکا ہے واقعات کی رپورٹ اور اسکی روشنی میں ذمہ داروں کے خلاف کاروائی اپنی جگہ ضروری ہے تاہم اس سے بھی زیادہ ضروری ناخوشگوار واقعات کی روک تھام کیلئے محفوظ حکمت عملی ہے‘ روڈ ایکسیڈنٹ ہو یا ہسپتالوں میں طبی امداد کی فراہمی میں تاخیر کسی شہری کے ساتھ کسی بھی ادارے کی جانب سے زیادتی ہو یا کسی ادارے کی غفلت‘ ذمہ داروں کے خلاف کاروائی کیساتھ اداروں کے مجموعی آپریشنل نظام میں سقم تلاش کرکے ان کو دور کرنا ضروری ہے جب تک سقم موجود رہے گا افسوسناک واقعات ہوتے رہیں گے۔