اسلام آباد: چیف جسٹس قاضی فاٸزعیسی نے کہا ہے کہ دوسرے آئینی ادارے پر تنقید کرنا اراکین پارلیمنٹ کا حق نہیں۔
چیف جسٹس قاضی فاٸزعیسی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے فیصل واوڈا اور مصطفی کمال کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کی۔ فیصل واوڈا اور مصطفی کمال عدالت میں پیش ہوئے۔
چیف جسٹس نے پوچھا کیا مصطفی کمال نے فیصل واوڈا سے متاثر ہوکر دوسرے روز پریس کانفرنس کی؟َ
مصطفی کمال کے وکیل فروغ نسیم نے جواب دیا کہ یہ محض ایک اتفاق تھا۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیوں آپ لوگ فیصل واوڈا سے متاثر نہیں ہیں، بطور آفیسر آف کورٹ بتائیں آپ کے مؤکل نے توہین کی یا نہیں ۔
فروغ نسیم نے جواب دیا کہ مصطفی کمال نے توہین نہیں کی، مصطفیٰ کمال نے ربا کی اپیلوں کے تناظر میں بات کی تھی، عدالت غیر مشروط معافی قبول کرتے ہوئے توہین عدالت کی کارروائی ختم کردے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جب توہین نہیں کی تو غیر مشروط معافی کیوں مانگ رہے ہیں، ربا کی اپیلیں کہاں زیر التوا ہیں؟
فروغ نسیم نے جواب دیا کہ ربا اپیلیں سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بینچ کے سامنے زیر التوا ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ تکنیکی طور پر وہ ایک الگ ادارہ ہے، پارلیمنٹ اور عدلیہ اپنے اپنے امور کی انجام دہی کریں، اراکین پارلیمنٹ کا حق نہیں کہ وہ دوسرے آئینی ادارے پر تنقید کریں، اگر پاکستان کی خدمت کیلئے تنقید کرنی ہے تو ضرور کریں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر مصطفیٰ کمال سمجھتے ہیں کہ انہوں نے توہین عدالت نہیں کی تو پھر معافی قبول نہیں کریں گے ، آپ ڈرائنگ روم میں بات کرتے تو الگ بات تھی ، اگر پارلیمنٹ میں بات کرتے تو کچھ تحفظ حاصل ہوتا ، آپ پریس کلب میں بات کریں اور تمام ٹی وی چینل اس کو چلائیں تو معاملہ الگ ہے ، قوم کو ایک ایسی پارلیمینٹ اور عدلیہ چاہیے جس کی عوام میں عزت ہو۔
چیف جسٹس نے فیصل واوڈا سے کہا کہ آپ تو سینیٹر ہیں سینیٹ تو ایوان بالا ہوتا ہے، سینٹ میں زیادہ سلجھے ہوئے لوگ ہوتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر کوئی کہے عدالتوں میں تاخیر سے فیصلے ہوتے ہیں تو منصفانہ تنقید ہے، اگر آپ سمجھتے ہیں کہ توہین نہیں کی تو غیر مشروط معافی کی بھی ضرورت نہیں ہمیں قائل کریں نوٹس واپس لیتے ہیں، ایک بات مصطفی کمال کی پریس کانفرنس میں تھی لیکن اس پر غیر مشروط معافی مانگتے ہیں، بتائیں اس معاملے پر دین کیا کہتا ہے، آپ نے پریس کلب میں بات کی پبلک میں بات کرنا اور تنہائی میں بات کرنے میں فرق ہے۔
فروغ نسیم نے جواب دیا کہ دین تو بہت کچھ کہتا ہے، ہم پریس کلب میں پریس کانفرنس کر کے معافی مانگ لیتے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے مؤقف اختیار کیا کہ پارلیمنٹ میں ججز کے کنڈکٹ کو زیر بحث نہیں لایا جاسکتا، اسی طرح عدالت میں بھی پارلیمنٹ کی کارروائی کو زیر بحث نہیں لایا جاسکتا، ججز کی دوہری شہریت پر بھی قانون پابندی عائد نہیں کرتا۔
چیف جسٹس نے یہ بھی کہا کہ پیمرا نے کورٹ رپورٹنگ نہ کرنے کا عجیب قانون بنادیا، یہ زیادتی ہے، کارروائی کیوں رپورٹ نہیں ہوگی، پیمرا کو آئین اور قانون بنانے کا اختیار کیسے حاصل ہوا، یہ اختیار پیمرا کوکیسے ملا۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہا اگر پارلیمنٹ میں ججز کے کنڈیکٹ کو زیر بحث لایا جائے تو کیا ہوگا؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ توہین عدالت کے قانون کا اطلاق ہوگا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم اظہار رائے کی آزادی پر قدغن نہیں لگائیں گے، ججز کی دوہری شہریت کا معاملہ ہمارے سامنے نہیں ہم توہین عدالت کا کیس سن رہے ہیں، کچھ لوگ چاہتے ہیں گالی گلوچ کر کے ڈرا دھماکا کے اپنی مرضی کے فیصلے لیں، امام مالک نے کہا اختلاف ایسے کرو کہ سر پر چڑیاں بیٹھی ہوں وہ چڑیاں نہ اڑیں، لوگوں نے ہمیں آپس میں جنگیں کرنے کے لیے نہیں بٹھایا ہوا، کیا ہمیں لوگوں نے ایک دوسرے سے لڑنے پر بٹھایا ہے؟ ہم نے نہیں کہا ہمارے فیصلوں پر تنقید نہ کریں، اگر سمجھتے ہیں کوئی بے ایمان جج ہے تو ریفرنس لیکر آئیں، اگر کوئی تجویز ہے تو ہمیں لکھ کر دیں، گالم گلوچ کر کے عدالتوں پر دباؤ ڈالنے والے آپ لوگ نہیں ہیں، وہ کچھ اور اچھے لوگ ہیں جو گالم گلوچ کر کے دباؤ ڈالتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ٹی وی والے سب سے زیادہ گالم گلوچ کو ترویج دیتے ہیں ، چینل کہہ دیتے ہیں فلاں نے تقریر کی ہم نے چلا دی یہ اظہار رائے کی آزادی ہے ، ٹی وی چینلز نے 34 منٹ تک یہ تقاریر نشر کیں، ٹی وی والے سب سے زیادہ نشریات دکھاتے ہیں، پریس کانفرنس نشر کرنے والے 36 چینلز کو نوٹسز ہونا تو چاہیے، جب جیبوں پر بوجھ پڑے گا تب انھیں اظہار رائے کی آزادی معلوم ہوگی۔
اٹارنی جنرل نے بھی تائید کی کہ میرے خیال میں نوٹس بنتا ہے، دونوں پریس کانفرنس نشر کرنے والے ٹی وی چینلز کو فی سیکنڈ ایک ایک لاکھ روپے جرمانہ ہونا چاہئے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پریس کانفرنس کی بجائے ہمارے سامنے آکر بات کر دیتے، غیبت کی ممانعت ہے، شاید جتنی گالیاں مجھے پڑی ہیں کسی اور کو نہیں ملیں، جتنا گالم گلوچ کا کلچر یہاں ہے اتنا دنیا میں کہیں بھی نہیں ہے، ٹوئیٹس کر دیئے جاتے ہیں، بچپن میں سنتے تھے جو کہتا ہے وہی ہوتا ہے، ہم بھی رائے دے سکتے ہیں کہ پارلیمنٹ نے کسی کو توسیع دے دی، مگر ہم ایسی باتیں نہیں کہیں گے، عدالتی فیصلوں پر ضرور تنقید کریں اڑا کر رکھ دیں، کسی نے میرے فیصلے پر تنقید کرنی ہے تو پڑھ کر کریں۔
وکیل فیصل واوڈا نے کہا کہ میرے مؤکل نے ملک کی بہتری کیلئے باتیں کیں۔
جسٹس عرفان سعادت خان نے جواب دیا کہ آپ نے دو ججز جسٹس بابر ستار اور جسٹس اطہر من اللہ کیخلاف پریس کانفرنس کی، آپ کی کانفرنس ملک کیلئے نہیں بلکہ مخصوص تھی۔
سپریم کورٹ نے مصطفی کمال کیخلاف شوکاز نوٹس واپس لینے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہم آپ کا کنڈکٹ دیکھنا چاہتے ہیں۔
عدالت نے توہین عدالت کا مواد نشر کرنے پر 34 ٹی وی چینلز کو شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا کہ ٹی وی چینلز بتائیں ان کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی کیوں نہ کریں۔
کیس کی سماعت 28 جون تک ملتوی کردی گئی۔