محکمہ خوراک نے بدھ کے روز 5 افراد کو گرفتار کر کے جیل بھجوایا‘ گرفتار ہونے والوں پر کم وزن روٹی اور گرانفروشی کا الزام ہے‘ اس کیساتھ صوبائی دارالحکومت میں نانبائیوں کو سنگل روٹی بنا کر فروخت کرنے کا کہا گیا ہے‘ محکمہ خوراک کیساتھ اضلاع کی سطح پر انتظامیہ اور حلال فوڈ اتھارٹی کے اہلکار بھی مارکیٹ کنٹرول کیلئے کاروائیوں میں مصروف رہتے ہیں‘ اس سب کیساتھ ادویات کے معیار کو یقینی بنانے کے ذمہ دار حکام جعلی اور دو نمبر ادویات فروخت کرنے والوں کیخلاف اقدامات اٹھاتے رہتے ہیں جن کے دوران جعلی ادویات کی تیاری کے حوالے سے اہم انکشافات ہوتے رہتے ہیں۔ ذمہ دار دفاتر کی کاروائیاں اس سارے منظر نامے میں احساس و ادراک کی عکاس ہیں تاہم یہ سب مسئلے کے مستقل حل کی ضرورت ہنوز اجاگر کر رہا ہے‘ کسی بھی ریاست میں مارکیٹ کنٹرول کے سارے کام کو اس وقت تسلی بخش قرار دیا جاتا ہے جب اس کی رسائی گراس روٹ لیول تک ہو اور اس میں قاعدے قانون پر عمل درآمد کے تمام مراحل میں چیک اینڈ بیلنس کا محفوظ نظام موجود ہو‘ دو چار اہم کاروباری مراکز میں کبھی کبھار کے چند چھاپے کسی صورت کافی قرار نہیں دیئے جا سکتے‘ اس برسر زمین حقیقت سے چشم پوشی کسی صورت ممکن نہیں کہ اس وقت اقتصادی منظر نامے کے اثرات مارکیٹ میں شدید گرانی کی صورت موجود ہیں تاہم صرف نظر اس حقیقت سے بھی ممکن نہیں کہ مصنوعی گرانی‘ ذخیرہ اندوزی اور ملاوٹ نے صورتحال کو تشویشناک بنا رکھا ہے‘ اس مصنوعی گرانی کے خاتمے کیلئے مارکیٹ کنٹرول کے حوالے سے ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت اپنی جگہ موجود ہے‘ اس ضرورت کو پورا کرنے کیلئے فیصلہ سازی کے ذمہ دار دفاتر کو ارضی حقائق مدنظر رکھنا ہونگے‘ پیش نظر رکھنا ہو گا کہ صرف نرخناموں کا اجراء کافی نہیں ان کا ثمرآور ہونا اس پر پوری طرح سے عمل درآمد کیساتھ مشروط ہے‘ عمل درآمد کے مراحل میں بڑے شہروں اور دیہات میں بھی گلی محلے کی سطح تک رسائی اور روزانہ کی بنیاد پر عوامی ریلیف کے اقدامات کو یقینی بنانے کیلئے سرکاری مشینری کے پاس افرادی قوت اور دیگر وسائل کسی صورت کافی قرار نہیں دیئے جا سکتے۔ ایسے میں ضرورت ایک مؤثر حکمت عملی کی ہے کہ جس میں منڈی کنٹرول کے ذمہ دار تمام دفاتر کے وسائل یکجا کر کے باہمی مشاورت سے ذمہ داریاں تقسیم ہوں‘ ساتھ ہی معیار کی جانچ پڑتال کیلئے فوڈ لیبارٹریز بھی شامل ہوں‘ اس سب کیساتھ اس سارے کام میں عوامی نمائندہ افراد اور سماجی تنظیموں سے بھی تعاون حاصل کیا جا سکتا ہے‘ اس سب کیلئے ماضی میں زیادہ کردار اضلاع کی سطح پر پرائس کمیٹیوں کا رہا ہے‘ ان میں ہر طبقے کی نمائندگی شامل ہوتی تھی ان کمیٹیوں کو بہتر انداز میں زیادہ فعال بنایا جا سکتا ہے‘ مجسٹریسی نظام کو بھی دوبارہ بحال کرنے کا آپشن موجود ہے‘ضرورت تلخ زمینی حقائق کی روشنی میں عوامی مشکلات کے احساس کی ہے۔