خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق تادم تحریر پاکستان اور انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کے درمیان قرض پروگرام کی شرائط کے حوالے سے متعدد تجاویز پر ڈیڈ لاک برقرار ہے‘ ان تجاویز میں خیبرپختونخوا کا حصہ بننے والے قبائلی اضلاع میں ٹیکس چھوٹ کا معاملہ بھی شامل ہے متعدد تجاویز پر ڈیڈ لاک کے ساتھ ہی فریقین نے مذاکرات جاری رکھنے پر اتفاق کیا ہے‘ اس ضمن میں بتایا یہ بھی جا رہاہے کہ آئی ایم ایف قبائلی اضلاع میں ٹیکس چھوٹ ختم کرنے پر اصرار کر رہا ہے‘ اس کے ساتھ زراعت اور صحت کے سیکٹرز پر ٹیکس کے نفاذ کا معاملہ بھی ہے‘آئی ایم ایف کی شرائط میں یہ بات بھی شامل ہے کہ قرض پروگرام کی پارلیمنٹ سے منظوری لی جائے‘ مذاکرات کے عمل میں ہمیشہ کچھ لو کچھ دو کے اصول پر بات بالآخر ختم ہو ہی جاتی ہے‘ آئی ایم ایف کے ساتھ پہلے بھی قرض پروگراموں کے اجراء پر باتیں ہوتی رہی ہیں‘قرض دینے والوں کی شرائط ہی کا نتیجہ ہے کہ آج ملک میں عام شہری کی زندگی اجیرن ہو چکی ہے‘ میڈیا رپورٹس کے مطابق آئی ایم ایف کی کڑی شرائط پر عملدرآمد کے نتیجے میں آنے والا نئے مالی سال کا قومی بجٹ عوام کیلئے مزید بوجھ بن جائے گا اقتصادی ماہرین کے حوالے سے رپورٹ میں بتایا جارہاہے کہ ٹیکسوں میں اضافے اور یوٹیلٹی بلوں کا حجم بڑھنے پر مہنگائی کے طوفان میں مزید شدت آئے گی‘ ملک کے اقتصادی اشاریے اس وقت تشویشناک صورت اختیار کئے ہوئے ہیں رواں مالی سال میں قرضوں اور واجبات میں 4 ہزار 643 ارب روپے کا اضافہ بتایا جارہاہے جبکہ مجموعی قرضہ67 ہزار524ارب روپے ہوگیا ہے صرف رواں سال میں بیرونی قرض 21ہزار941 ارب روپے بتایا جارہا ہے وطن عزیز میں اکانومی ایک عرصہ سے مشکلات کے گرداب میں ہے اور یکے بعد دیگرے برسراقتدار آنے والی حکومتیں ان مشکلات سے نمٹنے کیلئے قرضوں کے حجم میں اضافہ کرتی چلی آرہی ہیں صورتحال کا ذمہ دار کون ہے اور کون نہیں کی بحث یقینا طولانی ہے جس میں الجھے بغیر ضرورت اصلاح احوال کی جانب بڑھنے کی ہے اس میں بہتر منصوبہ بندی اسی صورت ممکن ہے جب برسرزمین تلخ حقائق کاسامنا کیا جائے فائلوں میں لگی رپورٹس اور اہم اجلاسوں میں سب اچھا ہے پر مبنی بریفنگ پر انحصار کرتے ہوئے جو بھی منصوبہ بندی کی جائے گی وہ ثمر آور نتائج کی حامل کسی صورت قرار نہیں دی جا سکتی‘ حکومت نے درپیش حالات میں اگلے پانچ سال کیلئے پلان تیار کرلیا ہے تاہم اس میں ضرورت اس حقیقت کا سامنا کرنے کی ہے کہ ملک کا غریب شہری موجودہ منظرنامے میں سب سے زیادہ متاثر ہے حکومت کسی بھی سیکٹر پر کوئی ٹیکس لگائے یا کسی بھی شعبے میں پیداواری لاگت بڑھ جائے تو لوڈ اسی عام شہری کو برداشت کرنا پڑتا ہے ایسے میں ضرورت جہاں اس شہری کو ریلیف دینے کی ہے تو ساتھ ہی قرضوں پر سے انحصار کو ختم کرنے کی بھی ہے تاکہ قرضوں کے حصول کے جاری سلسلے کو فل سٹاپ لگ جائے۔