قومی بجٹ میں کیا کھویا کیا پایا

یکم جولائی سے شروع ہونے والے نئے مالی سال کیلئے18 ہزار877 ارب روپے کے حجم کا حامل بجٹ پیش کردیاگیا ہے‘ بجٹ خسارے کا والیوم8 ہزار500 ارب روپے بتایا جارہاہے جبکہ8500 ارب روپے کا قرضہ لیا جائیگا‘ بجٹ میں ٹیکس عائد کرنے اور پٹرول و ڈیزل پر لیوی میں 20روپے لٹر اضافے کے عندیے کیساتھ جو اہم اعلانات ہوئے ان میں وفاقی محکموں کے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ ہے‘ جو20سے25فیصد تک جاتا ہے اسی طرح پنشن بھی15فیصد کے حساب سے بڑھا دی گئی ہے اسکے ساتھ تنخواہ دار طبقے کیلئے انکم ٹیکس میں بھی اضافہ کر دیا گیا ہے میزانیے میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو کیلئے ٹیکس وصولیوں کا ہدف12ہزار970ارب روپے کر دیا گیا ہے‘ جہاں تک ٹیکسوں کے نفاذ کا تعلق ہے تو صرف تنخواہ دار طبقہ اس کا بوجھ خود برداشت کرنے پر مجبور ہوتا ہے باقی حکومت جس سیکٹر پر کوئی بھی ٹیکس عائد کرے تو اس کا لوڈ عوام پر ہی منتقل کر دیا جاتا ہے قومی بجٹ کے پیچیدہ اعدادوشمار میں پڑے بغیر اور اس پر مختلف شعبوں کی جانب سے آنے والے ردعمل پر کسی بحث میں الجھے بغیر دیکھنا یہ ہوگا کہ بجٹ پیش کرنے اور اکانومی سیکٹر میں دیگر فیصلے کرتے وقت قرضہ دینے والوں کی جانب سے کس قدر دباؤ کا سامنا تھا انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کی جانب سے مطالبات کی فہرست کتنی طویل تھی کہ جن کو ماننا مجبوری بن چکا تھا اس وقت ضرورت اس بات کے احساس کی ہے کہ کس طرح سے ملکی معیشت کو قرضوں کے گرداب سے نکالا جائے اور عوام کو ریلیف دینے کیلئے قرض دینے والوں سے منظوری نہ لینی پڑے جہاں تک عوام کے ریلیف کا سوال ہے تو اس کیلئے برسرزمین حالات کے تناظر میں حکمت عملی ترتیب دینا ہوگی اس وقت ملک کا غریب اور متوسط طبقے کا شہری گرانی کے ہاتھوں سخت مشکلات کا سامنا کر رہاہے مارکیٹ میں متعدد مزید اشیاء کی قیمتیں بڑھنے پر ان مشکلات میں مزید اضافہ ہو جائیگا ایسے میں ضرورت ہے کہ اس شہری کیلئے ریلیف پیکج دیا جائے ساتھ ہی ضروری ہے کہ مارکیٹ کی حد تک اس شہری کو مصنوعی مہنگائی اور صحت و زندگی کیلئے خطرناک ملاوٹ سے چھٹکارہ دلایا جائے اس مقصد کیلئے محفوظ حکمت عملی ترتیب دینا ہوگی اس پلاننگ کو موثر بنانے کیلئے اس میں عوامی نمائندوں کو بھی شامل کیا جائے تاکہ پورے سسٹم کی رسائی گلی محلے کی سطح تک ہو سکے اسکے ساتھ ضروری ہے کہ اسی شہری کو بنیادی سہولیات کی فراہمی کے ساتھ معیاری خدمات کا میسر ہونا یقینی بنایا جائے۔