بجٹ کے اثرات

انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ نے پاکستان کے قومی بجٹ پر اطمینان کا اظہار کیا ہے‘ دریں اثناء وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کیساتھ قرضے کیلئے معاہدہ اگلے ماہ ہو جائیگا‘ خبررساں ایجنسی کا کہناہے کہ قومی بجٹ میں آئی ایم ایف ہی کے مطالبے پر3ہزار ارب روپے سے زائد کا ٹیکس استثنیٰ ختم کرنے کی تجویز دی گئی ہے‘ وفاقی وزیر خزانہ نے گزشتہ روز پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس سے خطاب میں میزانیہ کے اہم نکات کی و ضاحت بھی کی ان کا کہنا ہے ہول سیلرز کیساتھ پرچون فروشوں پر بھی ٹیکس کا اطلاق جولائی سے ہو جائیگا انہوں نے پٹرولیم لیوی کا حجم بتدریج 80روپے تک لے جانے کا عندیہ بھی دیا‘ ان کا کہنا ہے کہ ملک میں مہنگائی شرح سود کے مطابق ہی رہے گی اس سب کیساتھ وفاقی وزیر خزانہ یہ بھی کہتے ہیں کہ صوبوں کو منتقل ہونے والے ادارے بند کر دینے چاہئیں جبکہ کچھ وزارتیں بند کرنے پر بھی غور ہو رہا ہے‘ قومی بجٹ کی تیاری میں آئی ایم ایف کی جانب سے مطالبات پر مشتمل فہرست بھی مجبور ی کی صورت اختیار کئے ہوئے تھی جبکہ ریونیو کی جانب یہ بات واضح تھی کہ حکومت ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے پر توجہ دیئے ہوئے ہے حکومت پٹرولیم لیوی میں اضافہ کرکے‘ ٹیکس نیٹ کو توسیع دے کر دکانداروں سمیت کسی بھی سیکٹر پر نیا ٹیکس لگانے یا پھر موجودہ ٹیکس کی شرح میں ردوبدل کرے اس کا لوڈ عام شہری کو ہی برداشت کرنا پڑتا ہے‘ حکومت کی جانب سے اس وقت دس فیصد ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح کو ناقابل برداشت قرار دیا جا رہاہے اس ضمن میں طے پانے والی حکمت عملی میں اس شرح کو اگلے تین سال میں بڑھا کر13 فیصد پر لے جایا جا رہا ہے اس پورے منظرنامے میں متاثر ہونے والا ملک کا غریب شہری اپنے لئے ریلیف کی تلاش میں ہے اس شہری کو مکمل ریلیف اسی صورت مل سکتا ہے جب ملکی معیشت قرضوں کے چنگل سے آزاد ہو سردست صرف نگرانی کے موثر انتظام سے مارکیٹ میں ناجائز منافع خوری اور ملاوٹ پر قابو پایا جا سکتا ہے اس سب کیلئے بھی ضرورت مرکز اور صوبوں کی مشترکہ حکمت عملی کی ہے۔