چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس میں کہا کہ آرڈیننس جاری کرنے کی اتنی جلدی کیا تھی؟ جب پارلیمنٹ نے قانون بنا دیا تو آرڈیننس پارلیمنٹ کی توہین ہے۔
سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کی لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے خلاف حکم امتناع کی استدعا مسترد کرتے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کر دی۔
سپریم کورٹ میں الیکشن ٹریبونلز کی تشکیل کے خلاف الیکشن کمیشن کی اپیل پر سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ اگر آرڈیننس سے کام چلانا ہے تو پارلیمان بند کر دیں، آرڈیننس لانا پارلیمان کی توہین ہے۔
چیف نے ریمارکس دیے کہ کیا پاکستان میں ہر چیز کو متنازعہ بنانا لازم ہے؟ انتخابات کی تاریخ پر بھی صدر مملکت اور الیکشن کمیشن میں تنازعہ تھا،چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے الیکشن ٹریبونلز کی تشکیل سے متعلق الیکشن کمیشن کی اپیل پر سماعت کی، جسٹس نعیم افغان 2 رکنی بینچ کا حصہ تھے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر اور تحریک انصاف کے وکیل سلمان اکرم راجا عدالت کے سامنے پیش ہوئے ہیں، الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ کیس میں آئین کے آرٹیکل 219(سی) کی تشریح کا معاملہ ہے، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ہمیں کیس کے تھوڑے حقائق بتا دیں؟۔
وکیل نے جواب میں کہا کہ 14 فروری کو الیکشن کمیشن نے ٹریبونلز کی تشکیل کے لئے تمام ہائیکورٹس کوخطوط لکھے، ٹریبونلز کی تشکیل الیکشن کمیشن کا اختیار ہے، تمام ہائیکورٹس سے خطوط کے ذریعے ججز کے ناموں کی فہرستیں مانگی گئیں، خطوط میں ججز کے ناموں کے پینلز مانگے گئے۔
وکیل نے مزید کہا کہ لاہورہائیکورٹ کی جانب سے 20 فروری کو 2 ججز کے نام دیے گئے، دونوں ججز کو الیکشن ٹریبونلز کے لیے نوٹیفائی کردیا گیا، 26 اپریل کو مزید 2 ججز کو بطور الیکشن ٹریبونلز تشکیل دیے گئے۔
سماعت کے دوران ہائیکورٹ کے لیے قابل احترام کا لفظ کہنے پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے الیکشن کمیشن کے وکیل کو روک دیا۔ چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ہائیکورٹ کو قابل احترام کہہ رہے ہیں، یہ ججز کے لیے کہا جاتا ہے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر کا کہنا تھا کہ 4 ٹریبونلز کی تشکیل تک کوئی تنازع نہیں ہوا،چیف جسٹس نے اس موقع پر دریافت کیا کہ کیا چیف الیکشن کمشنر اور چیف جسٹس ایک دوسرے سے ملاقات نہیں کرسکتے؟ کیا پاکستان میں ہر چیز کو متنازعہ بنانا لازم ہے؟ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اور الیکشن کمشنر بیٹھ جاتے تو تنازعہ کا کوئی حل نکل آتا، بیٹھ کر بات کرتے تو کسی نتیجے پر پہنچ جاتے، آئین میں کہیں نہیں لکھا کہ کسی جج سے ملاقات نہیں کرسکتے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ انتخابات کی تاریخ پر بھی صدر مملکت اور الیکشن کمیشن میں تنازعہ تھا، رجسڑار ہائیکورٹ کی جانب سے خط کیوں لکھے جا رہے ہیں؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آئین بالکل واضح ہے الیکشن ٹریبونلز کا امتیاز الیکشن کمیشن کو حاصل ہے، آرٹیکل 219 سیکشن C نے بالکل واضح کردیا ہے، ہم نے آئین و قانون کے تحت حلف اٹھا رکھا ہے۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے ٹریبونلز تشکیل سے متعلق صدارتی آرڈیننس پر ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ریٹائرڈ ججز کا قانون کب بنایا گیا؟ صدارتی آرڈیننس کے ذریعے تبدیلی کیسے کی جاسکتی ہے؟
چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ایک طرف پارلیمان نے قانون بنایا ہے، پارلیمان کے قانون کے بعد آرڈیننس کیسے لایا جاسکتا ہے، آرڈیننس لانے کی کیا وجہ تھی؟ ایمرجنسی تھی؟ الیکشن ایکٹ تو پارلیمان کی خواہش تھی، یہ آرڈیننس کس کی خواہش تھی، جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ آرڈیننس کابینہ اور وزیراعظم کی خواہش تھی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ پارلیمان کی وقعت زیادہ ہے یا کابینہ کی؟ جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر نے کہا کہ پارلیمان کی وقعت زیادہ ہے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اس آرڈیننس کے ذریعے ہائیکورٹ فیصلے کی نفی کی گئی۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن نے تمام ہائیکورٹس کو خطوط لکھے تنازعہ نہیں ہوا،لاہور ہائیکورٹ کے علاوہ کہیں تنازعہ نہیں ہوا،بلوچستان ہائیکورٹ میں تو ٹریبونلز کی کارروائی مکمل ہونے کو ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ کیا کوئی انا کا مسئلہ ہے،یا تو کوئی جج نہیں رہا سب ریٹائرڈ ہو گئے ہیں پھر تو ریٹائرڈ ججز کو لگانا سمجھ میں آتا ہے، چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے سوال کیا کہ آرڈیننس کے معاملے پر الیکشن کمیشن کہاں کھڑا ہے؟ کیا آرڈینینس صیح ہے یا غلط؟ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آرڈیننس بھی انتخابات میں مداخلت کے زمرے میں اتا ہے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر کا کہنا تھا کہ آرڈیننس لانا غیر ضروری تھا،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سلمان اکرم راجہ کو ججز کے لیے ہینڈ پک کا لفظ استعمال کرنے سے روک دیا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس میں کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں الیکشن کرانا ہماری ذمہ داری ہے، ہائی کورٹ دور رہے، آپ کیسے کہہ رہے ہیں کہ صدارتی آرڈیننس لا سکتے تھے؟ کیا یہ قانونی ہے؟
وکیل سکندر بشیر نے کہا کہ میں نے قانون نہیں بنایا، جنرل بات سے زیادہ نہیں کر سکتا، آرڈیننس کا دفاع نہیں کر رہا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ میں کیسز کی ذمہ داری میری ہے، اپنی کمزوری کو وجہ نہ بنائیں۔
وکیل سکندر بشیر کا کہنا تھا کہ میں نے آخری بار سنا تھا تو لاہور ہائی کورٹ میں شاید 62 ججز تھے۔چیف جسٹس نے سلمان اکرم راجہ سے استفسار کیا کہ کیا آرڈیننس کو چیلنج نہیں کیا؟ پی ٹی آئی وکیل کا کہنا تھا کہ آرڈیننس کو لاہور، اسلام آباد ہائی کورٹس میں چیلنج کیا ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ مختلف ہائی کورٹس کیوں؟ آرڈیننس تو پورے ملک میں لگے گا۔ اس موقع پر وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ہم نے 9 جج مانگے تھے، 2 دیے گئے، الیکشن کمیشن کو 4 اپریل کو 6 جج دیے گئے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ الیکشن ٹریبونل کے لیے آئین کیا کہتا ہے؟ پارلیمنٹ قانون بناتی ہے، ہم قانون کی حفاظت کرتے ہیں، جس کا کام ہے، اسے کرنے دیا جائے، ایک میٹنگ میں بیٹھ کر سب طے کیا جاسکتا ہے، آرڈیننس سپریم کورٹ میں چیلنج نہیں ہوا، اس لیے نوٹس نہیں کر سکتے۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کرتے ہوئے اٹارنی جنرل پاکستان کو نوٹس کر دیا، سپریم کورٹ نے دیگرصوبوں میں ٹریبونلزکی تشکیل کی تفصیلات الیکشن کمیشن سے طلب کرلیں، جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ دیکھنا چاہتے ہیں ٹریبونلزکی تشکیل کامسئلہ دیگرصوبوں میں کیوں نہیں ہوا۔
سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کی لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے خلاف حکم امتناع کی استدعا مسترد کردی۔ سپریم کورٹ نے الیکشن ٹربیونلز کی تشکیل کا فیصلہ معطل کرنے کی الیکشن کمیشن کی اپیل مسترد کرتے ہوئے لارجر بینچ بنانےکیلئے معاملہ تین رکنی کمیٹی کوبھجوا دیا۔
عدالت کا کہنا تھا کہ معاملہ کمیٹی کے سامنے جتنی جلدی ممکن ہورکھا جائے،چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کمیٹی کے ایک ممبرلاہوردوسرے کراچی میں ہیں،آئندہ ہفتے ہی معاملہ کمیٹی کے سامنے رکھا جاسکے گا۔سپریم کورٹ نے سماعت غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کردی۔