خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سردار علی امین گنڈاپور اور وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کے درمیان رابطہ ہوا ہے‘اس رابطے کی تفصیلات میں بتایا جا رہاہے کہ علی امین گنڈاپور نے لوڈشیڈنگ کے حوالے سے اپنے تحفظات سے وزیر داخلہ کو آگاہ کیا‘ اس رابطے میں طے پایا ہے کہ لوڈشیڈنگ کے معاملے پر2روز میں مشاورت ہوگی‘ محسن نقوی کے رابطے پر سردار علی امین گنڈا پور نے گرڈ سٹیشنز کے تحفظ سے متعلق یقین دہانی کرائی ہے‘وزیر داخلہ محسن نقوی کا کہنا ہے کہ باہمی غلط فہمیاں دور کی جائیں گی اور کوشش ہے کہ صوبے میں لوڈشیڈنگ کا مسئلہ جلد حل ہو جائے‘ وطن عزیز معیشت کے سیکٹر میں شدید مشکلات کا شکار چلا آرہاہے‘ اس شعبے میں اصلاح احوال کیلئے ہونے والی کوششیں کامیابی کیلئے متقاضی اس بات کی بھی ہیں کہ ملک میں توانائی بحران کا خاتمہ یقینی بنایا جائے توانائی کے سیکٹر میں مسائل کے حل اور صنعت و زراعت کیلئے سستی بجلی کی فراہمی سے پیداواری لاگت کم ہو سکتی ہے‘ جس کا فائدہ مقامی منڈی کے صارف کیساتھ عالمی مارکیٹ میں قیمتوں کے حوالے سے مسابقت میں بھی ہو سکتا ہے‘ معیشت کی بحالی ہو یا پھر توانائی بحران کے خاتمے کیلئے اقدامات‘ ان سب میں ضرورت محفوظ حکمت عملی کی ہے ایسی پلاننگ کہ جس میں وسیع مشاورت شامل ہو‘ اس مشاورت میں یہ بات بھی یقینی ہو کہ طے پانے والی حکمت عملی ملک میں حکومتوں کی تبدیلیوں سے متاثر نہ ہونے پائے اس وقت بجلی کی قلت اور خیبرپختونخوا میں لوڈشیڈنگ سے پیدا صورتحال پر بحث میں پڑے بغیر ضرورت صوبے کے عوام کو فوری ریلیف فراہم کرنے کے ساتھ مسئلے کے پائیدار حل کی ہے‘ اس کے لئے مشاورت کا دائرہ وسیع ہونا ضروری ہے مشاورت کی ضرورت درپیش منظرنامے میں سیاسی درجہ حرارت کم کرنے اور اہم قومی معاملات یکسو کرنے کی ہے جس کے لئے سینئر قومی قیادت کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
روٹی کا وزن اور نرخ
چند روز کی خاموشی کے بعد صوبائی دارالحکومت میں روٹی کے وزن اور نرخ سے متعلق پھر سوالات جنم لینے لگے ہیں‘ گو کہ نرخنامہ اپنی جگہ موجود ہے تاہم اس پر عمل درآمد کتنا ہو رہا ہے یہ اپنی جگہ سوال ہے‘اس نرخنامے سے نانبائی کتنے مطمئن ہیں اور کیا ان کے لئے اس پرعمل درآمد ممکن ہے‘یہ بھی اپنی جگہ سوال ہے جب تک دکاندار نرخ پر عمل درآمد میں اپنے اخراجات اور آمدن کے حوالے سے مطمئن نہ ہو‘اس کے لئے کاروبار نرخ کے مطابق مشکل ہو جاتا ہے اس وقت ضرورت ہے کہ تمام سٹیک ہولڈرز جن میں نانبائیوں کی قیادت بھی شامل ہو مل کر صورتحال کا جائزہ لے اور متفقہ لائحہ عمل اختیار کیا جائے۔