وزیراعظم شہبازشریف نے گزشتہ روز غیر ملکی وفد کیساتھ بات چیت میں گردشی قرضے‘ لائن لاسز اور بجلی کی چوری کو توانائی کے شعبے میں بڑے مسائل قرار دیا‘ اس ساری صورتحال کے تناظر میں وزیراعظم بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی نجکاری اور آؤٹ سورسنگ کو حکومتی ترجیحات میں اہم قرار دے رہے ہیں‘ شہبازشریف مہنگی بجلی تیار کرنے کے ذرائع کی حوصلہ شکنی کا عزم بھی رکھتے ہیں وہ بجلی کے نرخوں میں کمی کیلئے اصلاحات کا عندیہ بھی دیتے ہیں وطن عزیز میں معاشی بحران تلخ حقیقت ہے‘ چشم پوشی توانائی کے بحران سے بھی کسی طور ممکن نہیں‘ اس سب کیساتھ صرف نظر بدانتظامی سے بھی ممکن نہیں‘ معیشت کے سیکٹر میں مشکلات اور توانائی بحران کی وجوہات اور ذمہ داروں کا تعین اپنی جگہ گردشی قرضوں کا حجم بڑھنا اس ضمن میں بروقت اقدامات نہ اٹھائے جانے اور موثر حکمت عملی سے گریز کا نتیجہ ہے‘ لائن لاسز پر قابو پانے کیلئے اقدامات کا ناکافی رہنا بھی سوالیہ نشان ہے جواب طلب سوال یہ بھی ہے کہ اس ضمن میں ذمہ دار دفاتر کیساتھ صوبوں اور اضلاع کی سطح پر انتظامیہ سے تعاون حاصل کرنے کیلئے کوئی طریقہ کار مستقل بنیادوں پر وضع کیا گیا اور کیا سب کو اعتماد میں لے کر آگے بڑھا گیا‘بجلی چوری کی روک تھام میں گراس روٹ لیول تک رسائی کا کوئی میکنزم بھی نہیں کہ جس میں عوامی نمائندگی بھی ہو اور مسئلے کے حل کی جانب بڑھنے کی کوشش بھی اس سرگرمی کیساتھ دکھائی نہیں دیتی کہ جو متقاضی ہے‘بڑے مسائل میں یہ بات بھی شامل ہونا ضروری ہے کہ ملک میں بجلی کا بحران شدت اختیار کئے ہوئے ہے جبکہ دوسری جانب نمائشی اور دیگر غیر ضروری استعمال کا سلسلہ پوری طرح جاری ہے ایک ایسے وقت میں جب بجلی بہت زیادہ مہنگی ہے غریب صارفین بجلی کے بلوں کا حجم دیکھ کر شدید پریشانی کا شکار ہو جاتے ہیں‘ بجلی کا بل ان کے پورے مہینے کے گھریلو بجٹ کو بری طرح متاثر کرکے رکھ دیتا ہے حکومت کا سستی بجلی کی پیداوار پر توجہ دینا قابل اطمینان ہے‘ اس عزم کا ثمر آور صورت اختیار کرنا مشروط ہے آبی ذخائر کی تعمیر سے کہ جن کیلئے ضروری سیاسی مشاورت بھی ہے‘کیا ہی بہتر ہو کہ وزیراعظم نے جن مسائل کی نشاندہی کی اور اصلاح احوال کیلئے جس طرح عزم کا اظہار کیا۔ متعلقہ دفاتر اس بات کو صرف میڈیا رپورٹس تک محدود نہ رکھیں بلکہ مسئلے کے حل کی جانب بڑھنے کیلئے حکمت عملی بلاتاخیر ترتیب دیں اس پلاننگ میں قومی قیادت کیساتھ مشاورت بھی ضروری ہے۔