سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ میں ریٹیلرز نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت کو ٹیکس کی شرح کے بجائے ٹیکس بیس کو بڑھانا چاہیے، جبکہ چیئرمین کمیٹی نے بھی ٹیکس کی شرح کو بڑھانے کے عمل کو غلط قرار دیا۔
سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس ہوا۔
ریٹیلرز کی جانب سے کہا گیا کہ ٹیکس کی شرح 15 فیصد سے بڑھا کر 18 فیصد کی جارہی ہے، حکومت کو ٹیکس ریٹ کے بجائے ٹیکس بیس کو بڑھانا چاہیے۔
چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ٹیکس کی شرح کو بڑھانا درست عمل نہیں ہے، جو ٹیکس دے رہے ہیں ان پر بوجھ ڈالا گیا۔
سینیٹر فیصل واڈا کا کہنا تھا کہ نان فائلرز کی سمز بلاک تو کی جارہی ہیں مگر نان فائلرز کو حج اور عمرہ پر جانے کی اجازت دی جارہی ہے۔
ایف بی آر حکام نے بتایا کہ حج ایک مذہبی فریضہ ہے، اسی وجہ سے نان فائلرز کو اجازت دی گئی، جس پر فیصل واڈا نے کہا کہ ٹیکس دینا بھی ایک مذہبی فریضہ ہے، پہلے ٹیکس نیٹ میں آجائیں پھر اللہ کے گھر حاضر ہوں۔
سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ فائلر اور نان فائلر کا خیال ہی غلط ہے، کاروبار کو فروغ دینے کے بجائے ہم نے فائلر اور نان فائلر کی کیٹیگری بنا دی، تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس میں اضافہ کیا گیا اب وہ چوری کرکے ٹیکس دے گا، بدقسمتی ہے کہ ملک کا وزیر خزانہ ایک بینکر ہے۔
سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ پاکستانی عوام ٹیکس نیٹ کی طرف جاتے ہی نہیں ہیں، بس کمائے جاؤ اور ریاست کو ٹیکس نہ دو کی پالیسی ہے۔
سینیٹر انوشے رحمٰن نے سوال اٹھایا کہ مقامی کارنر شاپس کو کب ٹیکس نیٹ میں لایا جارہا ہے، ساتھ ہی بتایا کہ ان کے ٹاؤن کے کارنر کی دکان کا مالک روزانہ 7 لاکھ روپے کی پرچون اٹھاتا ہے۔
اجلاس میں اپٹما نے درخواست کی کہ ایکسپورٹ ڈیولپمنٹ سرچارج کو کچھ عرصے کے لیے ڈسچارج کردیں۔
نمائندہ پی آر بی سی نے کہا کہ ایف بی آر سیلز ٹیکس 18 فیصد کے بجائے 15 فیصد ہی رہنے دے، ایف بی آر کو ٹیکس لینا چاہیے لیکن کسی چیز کو قتل نہیں کرنا چاہیے۔
چیئرمین سلیم مانڈوی والا کا کہنا تھا کہ سپر ٹیکس کے وقت ایف بی آر نے کہا تھا کہ صرف ایک سال کے لیے لائے ہیں، اب تیسرے سال بھی سپر ٹیکس آگیا، یہ سپر نہیں مستقل ٹیکس ہوگیا۔