درجہ حرارت

وطن عزیز میں گرمی کی شدت کیساتھ سیاسی درجہ حرارت بھی بلندچلا آرہا ہے‘ بدھ کے روز  ملک میں شدید گرمی تھی جبکہ قومی اسمبلی کے ٹھنڈے ہال میں سیاسی درجہ حرارت بلند تھا‘ ایسے میں وزیراعظم شہبازشریف نے اپوزیشن کو ایک بار پھر مذاکرات کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ اگر تحریک انصاف کے بانی سربراہ کو جیل میں مشکلات کا سامنا ہے تو آئیں اور مل بیٹھ کر بات کریں اور معاملات کو طے کریں‘ جس کے جواب میں ایوان میں قائدحزب اختلاف عمر ایوب نے مذاکرات کیلئے شرائط بتائی ہیں‘ عمر ایوب کا کہنا ہے کہ عمران خان سمیت تمام کارکنوں کو رہا کیا جائے‘ہماری180 نشستیں واپس کی جائیں اور یہ کہ قومی مفاہمت کیلئے اڈیالہ جیل کا رخ کیا جائے‘ اسی روز وزیراعظم شہبازشریف نے قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران نشستوں پر جاکر قائد حزب اختلاف عمر ایوب اور دیگر رہنماؤں سے مصافحہ کیا جن میں اسد قیصر بھی شامل تھے‘ وطن عزیز میں سیاست کا میدان ایک عرصے سے تپش کا شکار چلا آرہا ہے‘ پارلیمانی جمہوریت میں یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اختلاف اس سارے سسٹم کا حصہ ہے تاہم اس اختلاف کی شدت وحدت کو حداعتدال میں رکھنا ناگزیر ہے پارلیمانی سیاست میں معاملات مل بیٹھ کر نمٹانا ہمیشہ ناگزیر رہا ہے‘ اس میں بات چیت کی پیشکش بھی معمول ہے اور اس کیلئے شرائط کا آنا بھی معمول ہی ہے‘اب معاملات کو سلجھانا ممکن ہی شرائط کی روشنی میں بات چیت سے ہے جس کیلئے ایک دوسرے کی بات تحمل کیساتھ سننا ہوگی اس حوالے سے وزیراعظم شہبازشریف کہہ بھی رہے ہیں کہ ملک کی خوشحالی اور بہتریکے لئے بات چیت کے سوا چارہ نہیں‘ اس وقت ملک کو درپیش مسائل کا تقاضہ بھی ہے کہ معاملات کو سلجھایا جائے ایک دوسرے کا موقف سنا جائے اس مقصد کیلئے سینئر قیادت کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ سیاسی استحکام ممکن ہو جو کہ کسی بھی ریاست میں معاشی استحکام سے جڑا ہوتا ہے۔
پیشگی انتظامات سے گریز کیوں؟
گرمی کی شدت کیساتھ بجلی کی طلب کے مقابلے میں کم رسد کا مسئلہ حسب معمول شدید ہوتا چلا جارہا ہے‘ اس کے ساتھ ترسیل کے نظام کی خرابیاں بھی اذیت ناک صورت اختیار کئے ہوئے ہیں‘دوسری جانب ٹرانسفارمروں کی مرمت کیلئے فنڈز بھی اس شدید گرمی میں ہی جاری ہو رہے ہیں جبکہ بجلی چوری کیخلاف اقدامات بھی اب ہی اٹھائے جارہے ہیں‘ موسم گرما اچانک نہیں آتا بجلی کی ترسیل کے نظام کی خرابیاں اور ٹرانسفارمروں پر لوڈ کی تقسیم کا کام سردی میں بھی ہو سکتا تھا‘ تاروں کی تبدیلی اور دیگر مرمت کے کام بھی ہوسکتے تھے بجلی چوری کیخلاف اقدامات بھی پہلے اٹھائے جاسکتے تھے تاکہ گرمی کے آنے تک چوری کم ہو چکی ہوتی‘ وقت کا تقاضہ ہے کہ اب مختلف شعبوں میں پیشگی انتظامات سے گریز کی روش ترک کی جائے۔