وزیراعظم شہبازشریف نے برسرزمین تلخ حقائق کے تناظر میں اقتصادی منظرنامے کے خدوخال اجاگر کرنے کیساتھ یہ بھی کہا ہے کہ قرضے کیلئے آئی ایم ایف کے پاس دوبارہ جانا ہمارے لئے ڈوب مرنے کا مقام ہوگا‘ پیر کے روز کوئٹہ میں کسان پیکیج کی دستخط تقریب اور صوبائی کابینہ کے ارکان کے ساتھ بات چیت میں وزیراعظم کا کہنا ہے کہ ملک کو قرضوں سے نجات دلانے کیلئے وفاق اور صوبوں کو مل کر کام کرنا ہوگا‘ وزیراعظم شہبازشریف یہ بھی کہتے ہیں کہ اس وقت اگر تلخ فیصلے نہ کئے گئے تو3سال کے بعد دوبارہ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ ہی کے پاس جانا ہوگا‘ وزیر اعظم قرضوں کو مجبوری قرار دینے کیساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ قرضوں نے ہماری نسلوں کو گروی رکھ دیا ہے‘ وزیراعظم نے کھلے دل کے ساتھ ارضی حقائق کا اعتراف کیا ہے انہوں نے مزید قرضے کیلئے جانے کو ڈوب مرنے کامقام بھی قرار دیا ہے اس وقت درپیش صورتحال اس بحث کی متحمل نہیں کہ ہماری قومی قیادت یہ فیصلہ کرے کہ ملک کی اکانومی کو اس مقام تک پہنچانے کا ذمہ دار کون ہے اور کون نہیں‘ اس وقت ضرورت اصلاح احوال کی جانب پیش قدمی کی ہے اس کیلئے حقیقت پسندانہ حکمت عملی اختیار کرنا ہی ناگزیر ہے صرف زبانی کلامی بڑے بڑے اعلانات سے کچھ نہیں ہوتا‘ وزیراعظم کا یہ کہنا درست ہے کہ اس سب کیلئے وفاق اور صوبوں کو مل کر کام کرنا ہوگا‘ مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ ملک کو درپیش صورتحال میں متاثر کون ہو رہا ہے‘حکومت نے قومی بجٹ آئی ایم ایف کے ساتھ مل کر بنایا حکومت اس اعتراف کیساتھ اسے مجبوری قرار دیتی ہے بجٹ میں ٹیکسوں کی بھرمار بھی ہے یہ ٹیکس یکم جولائی کو نیا مالی سال شروع ہونے سے ادا کون کر رہا ہے کسی صنعتی یونٹ کو سیلز ٹیکس عائد ہونے پر صرف اتنی محنت کرنا پڑی کہ اس نے اپنی مصنوعات کی پیکنگ پر خوردہ قیمت کیساتھ سیلز ٹیکس شامل کرکے کل قابل ادا رقم لکھ دی اب یہ رقم ادا کس نے کرنی ہے وہ عام صارف ہے جو ہمیشہ کی طرح ہر قسم ٹیکس اور پیداواری لاگت میں اضافے کا لوڈ اٹھاتا چلا آرہا ہے کسی بھی ریاست میں حکومت کیلئے معاشی استحکام یقینی بنانا ضروری ہی ہوتا ہے‘ وطن عزیز میں بھی اس ضرورت سے انکار ممکن نہیں اسکے ساتھ احساس یہ بھی ضروری ہے کہ پورے منظرنامے میں عام آدمی بری طرح متاثر ہو رہاہے اقتصادی سیکٹر میں اصلاحات سے اس عام آدمی کا ریلیف بھی جڑا ہے جس کو مشکلات کے گرداب سے نکالنا ہوگا۔