عین اسی روز جب ملک میں سیاسی درجہ حرارت اپنے عروج پر تھا گرما گرم بیانات سیاسی رابطوں اور ملاقاتوں کا سلسلہ پوری طرح جاری تھا عالمی مالیاتی ادارے کے ساتھ 7 ارب ڈالر قرضے کیلئے سٹاف لیول معاہدہ طے پا گیا اگلے مرحلے میں آئی ایم ایف کا ایگزیکٹیو بورڈ اس 3 سالہ قرض پروگرام کی حتمی منظوری دے گا اس قرضے کے بدلے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کی جانب سے شرائط پر مبنی طویل فہرست پر عملدرآمد ہوگا اس کے نتیجے میں ملک کے غریب عوام پر ایک بڑا بوجھ مزید لادا جائے گا ٹیکس صنعت پر لگے یا زراعت پر ادا غریب عوام نے ہی کرنا ہوتا ہے‘ یوں فیڈرل بورڈ آف ریونیو کا ہدف پورا ہو جائے گا بات صرف ٹیکسوں اور ڈیوٹیز تک محدود نہیں عوام کو حاصل متعدد رعاتیں جو سبسڈیز کی صورت میں دی جاتی ہیں وہ بھی ختم ہوتی چلی جا رہی ہیں وزیر اعظم شہباز شریف نے گزشتہ روز فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے ایک اجلاس میں عوام پر گرائے جانے والے ٹیکسوں کے بوجھ پر سخت برہمی کا اظہار کرنے کے ساتھ کہا ہے کہ آئی ایم ایف سے اب جان چھڑانی ہے وزیر اعظم کا عزم اس حوالے سے قابل اطمینان ہے‘ وطن عزیز کی معیشت عرصے سے مشکلات کا شکار ہے ان مشکلات کا مقابلہ قرضے اٹھا کر کیا جارہا ہے‘ ایک کے بعد دوسری حکومت قرضوں کے حجم میں اضافہ کرتی چلی آرہی ہیں ان قرضوں کے حصول کیلئے عائد کی جانےوالی شرائط کا بوجھ فوری طور پر عوام کو منتقل کر دیا جاتا ہے اس وقت عام آدمی کےلئے مہنگائی اذیت ناک صورت اختیا رکر چکی ہے‘ سہولیات کا فقدان اور سروسز کا معیار الگ ہے ‘بےروزگاری نے پریشان کن صورت اختیا رکی ہوئی ہے‘ وقت کا تقاضہ ہے کہ اس ساری صورتحال سے اب باہر نکلا جائے جس کےلئے ضرورت وسیع مشاورت سے محفوظ حکمت عملی کی ہے جس کا احساس ناگزیر ہے۔
جامعات کی حالت؟
خیبرپختونخوا کابینہ کے 10 ویں اجلاس میں دیگر فیصلوں اور قرار دادوں کے ساتھ صوبے میں سرکاری یونیورسٹیوں کے سربراہوں کے انتخاب کیلئے قائم کمیٹی کی تشکیل نو بھی منظور کی گئی ہے صوبے کی حکومت کا فیصلہ اس حوالے سے احساس کا عکاس ہے کہ متعدد سرکاری یونیورسٹیاں مالی مسائل کے ساتھ انتظامی سربراہوں سے بھی محروم ہیں۔ صوبے میں یونیورسٹیوں کی تعداد تو بڑھتی رہی ہے تاہم ان کے وسائل اور انتظامی معاملات پر درکار توجہ نہیں دی گئی‘ اس وقت بعض یونیورسٹیاں تنخواہیں ادا کرنے کے قابل بھی نہیں ضرورت وائس چانسلروں کی تقرری کےساتھ تمام اسٹیک ہولڈرزکے ایک مشترکہ اجلاس کی ہے جس میں سابق وائس چانسلرز اور دیگر ماہرین کو بھی بلایا جائے تاکہ یونیورسٹیوں کے مسائل عملی طور پر حل ہو سکیں۔