پاکستان میں مہنگائی کی شرح مزہد بڑھنے کا خطرہ ہے : آئی ایم ایف کی ڈبلیو ای او رپورٹ جاری

آئی ایم ایف نے عالمی معیشتوں کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ان کی پیداوار میں تنوع کم ہوگیا ہے، مہنگائی اور بڑھنے کا خطرہ اور سود کی شرح میں اضافے کا امکان بھی بڑھ گیا ہے۔ 

سٹاف لیول، معاہدے پر دستخط کے بعد اب آئی ایم ایف نے پاکستان کا حقیقی جی ڈی پی ( مجموعی قومی پیداوار) کا تخمیہ 3.5 فیصد لگایا ہے، قبل ازیں اس حکومت نے رواں برس کے لیے اس کا سرکاری تخمینہ 3.6 فیصد لگایا تھا۔ 

آخری مالی سال 2023 جو کہ 30 جون کو اپنے اختتام پر پہنچا اس کے حوالے سے آئی ایم ایف نے مجموعی قومی پیداوار کا تخمینہ 2 فیصد لگایا تھا جبکہ حکومت پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال مجموعی قومی پیداوار 2.38 فیصد رہی ہے جو کہ اکنامک سروے برائے 2023-24 کے لیے جاری کی گئی تھی۔ 

آئی ایم ایف نے مجموعی قومی پیداوار کے حوالے سے مالی سال 2024-25 کے اعدادو شمار میں کوئی تبدیلی نہیں کی اور اسے اپریل 2024 کے اعداد و شمار کے ساتھ برقرار رکھا ہے۔ 

ورلڈ اکنامک آئوٹ لک نے گلوبل اکنامی ان اسٹکی اسپاٹ کی رپورٹ میں سی پی آئی کی بنیاد پر مہنگائی کا تخمینہ جاری نہیں کیا۔ پاکستان نے سی پی آئی کی بنیاد پر مالی سال 2025 کیلیے مہنگائی کا جو تخمینہ جاری کیا ہے اس کے مطابق مہنگائی 12 فیصد ہوگئی ہے جو کہ جون میں ختم ہونے والے مالی سال میں 23.4 فیصد تھی۔ 

اگرچہ آئی ایم ایف کوشش کرتا ہے کہ وہ اپنا جی ڈی پی کا تخمینہ پاکستان کے سرکاری تخمینے کے قریب تر رکھے۔ آزاد ماہرین معاشیات کےلیے 3.6 فیصد کی شرح ترقی کے حصول پر یقین کرنا خاصا مشکل ہے کیونکہ زرعی ترقی کی بنیاد سے حاصل کرنا ہوگا چنانچہ سروس سیکٹر اور صنعتی سیکٹر پر انحصار بڑھ جائے گا۔ 

آئی ایم ایف کی ڈبلیو ای او رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بین الاقوامی ترقی اپریل 2024 میں لگائے گئے تخمینے کے مطابق ہے جو کہ 2024 کےلیے 3.2 فیصد اور 2025 کےلیے 3.3 فیصد تھا۔ تاہم سال بدلنے کے ساتھ تحرک میں جو تبدیلی آئی ہے اس کے مطابق پیداوار میں تنوع کم ہوا ہے۔ 

معیشتوں میں باقاعدہ وقفوں والے عوامل مدھم ہورہے ہیں اور سرگرمیاں پوٹینشل کے ساتھ بہتر طور مطابقت پذیر ہیں۔ خدمات کی قیمتوں میں ہونے والی مہنگائی دراصل مہنگائی میں کمی کو جکڑے ہوئے ہے اور یہ چیز مالیاتی پالیسی کی نارملائزیشن کوپیچیدہ کر رہی ہے۔ چنانچہ مہنگائی اور بڑھنے کا خطرہ بڑھ گیا ہے اور اس سے طویل مدتی قرضوں کےلیے سود کی شرح میں اضافے کے امکانات بھی بڑھ گئے ہیں۔ 

یہ سب کچھ تجارتی کشیدگی اور پالیسی کے بارے میں بڑھتی ہوئی بے یقینی کے سیاق وسباق میں ہورہا ہے۔ ان خطرات کا انتظا م کرنے کےلیے اور اور ترقی کو برقرار رکھنے کیلیے پالیسی مکس کی ضرورت ہے جس میں بڑی احتیاط کے ساتھ قیمتوں کے استحکام کے حصول کے ساتھ ساتھ ختم ہونے والے بفرز کو دوبارہ سے بھرنا ہوگا۔ 

بین الاقوامی سرگرمی اور عالمی تجارت سال بدلنے کے ساتھ مضبوط ہوئے ہیں اور ایشیا سے اس تجارت نے طاقتور برآمدات بالخصوص ٹیکنالوجی سیکٹر میں برآمدات سے تقویت پائی ہے ۔2024 کی پہلی سہ ماہی میں بہت سے ممالک میں ترقی ہوئی اگرچہ جاپان اور امریکا جیسے ممالک میں حیران کن طور پر ترقی میں کمی ہوئی۔ 

امریکا میں ایک طاقتور آئوٹ پرفارمنس کے پائیدار دورانیے کے بعد توقعات سے بڑا سلو ڈائون آیا جس سے جاپان میں منفی ترقی حیران کن تھی اور یہ عارضی نوعیت کے رسدی خلل کا نتیجہ تھا جس کی وجہ سے پہلی سہ ماہی میں آٹو موبائیل پلانٹ بند ہوئے۔ اس کے برعکس یورپ کی معیشتوں نے بحالی کو تعبیر دینے میں دوڑ میں لگائی اور اس دوڑ کے پیچھے سروسز کی سرگرمی میں بہتری تھی۔ 

چین میں داخلی صرف نے پہلی سہ ماہی میں ترقی دلائی ہے اور اسے برآمدات میں آنے والے عارضی بہتری سے بھی تقویت ملی ہے ۔ان پیشرفتوں نے آئوٹ پٹ کے تنوع کو کچھ حدتک کم کیا ہے ۔