منی میں 27 حاجیوں کی جان بچانے پر پاکستانی رضاکار کو بھارت کا خراج تحسین

رواں سال حج کے موقع پر جہاں عازمین حج نے شدید گرمی کی صورتحال کو برداشت کیا، وہیں ایک ایسا پاکستانی بھی موجود تھا، جو کہ لوگون کی جان بچانے کی کوشش کرتا رہا۔

تفصیلات کے مطابق پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے آصف بشیر نے حج کے موقع پر مکہ میں بطور رضاکار کام کیا ہے۔

50 ڈگری سینٹی گریڈ میں جہاں زمین تپ رہی تھی، وہیں ہیٹ اسٹروک کے باعث 1301 اموات رپورٹ کی گئی تھی، اس سب میں آصف نے بھارت سے آئے عازمین حج کی خدمت کی اور ان کی جان بچانے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔

شدید گرمی کے موقع پر دوسروں کی مدد کرنے پر آصف بتاتے ہیں کہ بھارت سے آئے حجاج کرام مجھے پاکستانی بجرنگی بھائی جان کہہ کر بلاتے تھے، بہت سے حجاج نے تو مجھے ’منیٰ کے فرشتے‘ کا لقب بھی دیا ہے۔

آصف نے جن حجاج کی خدمت کی، ان میں بیشتر بھارتی شہری شامکل تھے، جو کہ آصف بشیر کی بہادری، خلوص اور انسانیت کے جذبے کو سراہتے دکھائی دیے۔

جبکہ بھارتی وزیر برائے اقلیتی امور کرن ریجیجو نے بھی آصف کی خدمات پر ان کا شکریہ ادا کیا، اپنے خط میں بھارت کا کہنا تھا کہ آپ کی وجہ سے منیٰ میں بھارتی شہریوں سمیت بہت سے حجاج کرام کی جان بچ گئی۔

آپ کی بہادری کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، جبکہ بہت سے لوگ آپ کے نقش قدم کی پیروی کریں گے۔

جبکہ آصف بشیر کا کہنا تھا کہ بھارتی قونصل جنرل جدہ نے کہا ہے کہ وہ انہیں انڈین ایوارڈ ’جیون رکشا‘ کے لیے بھی نامزد کریں گے۔

آصف نے بتایا کہ حج کے دوران بحیثیت رضا کار ان کا کام پاکستان سے جانے والے حجاج کی رہنمائی کرنا تھا، لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ شدید گرم موسم میں لوگ بڑی تعداد میں بے ہوش یا نڈھال ہو رہے ہیں، تو انہوں نے مدد کرنے کا فیصلہ کیا۔

آصف نے بتایا کہ 10 ذوالحجہ کے روز شیطان کو کنکریاں مارنے والے دن موسم شدید گرم تھا، اسی دن آصف نے سڑکوں پر لاشیں دیکھی، جنہیں دیکھ کر خود آصف کے بھی ہاتھ پاؤں پھول گئے تھے، تاہم حوصلہ کرتے ہوئے انہوں نے ساتھی رضاکاروں کے ساتھ لوگوں کی جان بچانے کا فیصلہ کیا۔

آصف اور ان کے ساتھیوں کی جانب سے 26 افراد کو ریسکیو کیا گیا تھا، تاہم 26 میں سے 9 افراد جانبر نہ ہوسکے اور خالق حقیق سے جا ملے تھے۔

جبکہ 17 افراد کی جان بچائی گئی جن میں سے 16 بھارتی شہری شامل تھے، جبکہ ایک پاکستانی نژاد برطانوی شہری تھا۔

آصف کا مزید بتانا تھا کہ ’میں نے جب دیکھا کہ انڈین شہری بھی ہیں تو میں نے یہ نہیں سوچا کہ یہ انڈین ہیں یا پاکستانی کیونکہ ہمارا مقصد تو صرف جان بچانا تھا اور جب انڈین شہریوں نے دیکھا کہ ایک پاکستانی ان کی مدد کر رہا ہے تو وہ بہت خوش اور شکر گزار ہوئے۔ وہ مجھے پاکستانی بجرنگی بھائی کہہ کر بھی بلاتے تھے۔‘ جبکہ آصف بشیر کو لکھا گیا بھارتی وزیر برائے اقلیتی امور کا خط بھی منظر عام پر آ گیا ہے۔