ملک کے سیاسی ماحول کی تلخی وقت کیساتھ بڑھتی اور کم ہوتی رہتی ہے ایک طویل عرصے سے سیاسی گرما گرمی اور تلخی کے ماحول میں خبررساں ایجنسی کی یہ رپورٹ قابل توجہ ہے کہ وطن عزیز کے ذمے قرضے کا حجم67 ہزار500 ارب روپے ہوگیا ہے ایوان بالا کو فراہم کی جانے والی تفصیلات کے مطابق اس میں 43 ہزار400 ارب روپے ملکی جبکہ24ہزار100ارب روپے غیر ملکی قرضہ شامل ہے ذمہ دار سرکاری دفاتر کے پاس موجود اعدادوشمار اس افسوسناک صورتحال میں یہ بتاتے ہیں کہ سال2008ء میں قرضے کا حجم6ہزار ایک سو ارب تھا اسکے بعد یہ گراف بڑھنا شروع ہواور اب اعدادوشمار کے ساتھ بتایا جا رہا ہے کہ صرف16 سال میں ملکی قرض میں 61ہزار400 ارب کا اضافہ ہوا ہے‘ ملک کو قرضوں کے گرداب میں پہنچانے کے ذمہ دار کا سوال آئے تو قومی قیادت ایک دوسرے پر الزامات کی بارش کردیتی ہے وطن عزیز میں صورتحال اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ قرضوں کے حصول پر افسوس کا اظہار کرنے کے بجائے اس بات پر خوشی منائی جاتی ہے کہ قرض دینے والوں نے ہماری اقتصادی حکمت عملی پر اپنا اعتماد ظاہر کر دیا ہے‘ فنانشل مینجمنٹ کے ادارے اقتصادی استحکام کی بجائے قرضوں کے حصول اور قرض دینے والوں کی شرائط پر عملدرآمد یقینی بنانے کیلئے ہی کام کرتے رہتے ہیں‘ ہر قرضے کیلئے مذاکرات کا سلسلہ شروع ہونے پر شرائط کی فہرست سامنے آجاتی ہے‘ اس پر بات چیت کا سلسلہ چلتا رہتا ہے اور با لآخر اس فہرست کو تسلیم کرتے ہوئے تمام مطالبات کا لوڈ عوام پر ڈال دیا جاتا ہے‘ اس بوجھ نے ملک میں عام شہری کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے‘کیا ہی بہتر ہو کہ اس سارے ماحول میں ایک دوسرے کو صورتحال کا ذمہ دار ٹھہرانے پر توانائیاں صرف کرنے کی بجائے اصلاح احوال کی جانب بڑھا جائے تاکہ عوام کو بھی ریلیف کا احساس ہو‘اس سب کے لئے ضرورت ایک موثر حکمت عملی کی ہے کہ جس کا احساس ناگزیر ہے۔
تھنک ٹینک قابل اطمینان پیشرفت
سول سروس کے طویل دورانیے میں اہم ترین عہدوں پر خدمات کے ساتھ سابق چیف سیکرٹری خیبرپختونخوا محمد شہزاد ارباب نے قبائلی علاقہ جات میں اصلاحات کے ساتھ سول بیورو کریسی کے ڈھانچے میں تبدیلیوں کے لئے بھی انتھک جدوجہد کی ہے‘ خیبرپختونخوا میں درپیش چیلنجوں پر زمینی حقائق کی روشنی میں بات کرنے اور اصلاح احوال کے لئے سفارشات پیش کرنے کی غرض سے ایسپائر کے پی کے نام سے تھنک ٹینک کی تشکیل بلاشبہ قابل اطمینان ہے‘ تاہم اس کا قیام اسی صورت ثمر آور نتائج دے سکتا ہے جب اس میں بات زمینی حقائق کی روشنی میں ہو‘اور وہ حل تجویز کئے جائیں کہ جو قابل عمل بھی ہوں بصورت دیگر سب کچھ زبانی کلامی رہ جائے گا‘ اس تھینک ٹینک کے لئے ان کے ساتھ شامل لوگ اپنے اپنے شعبوں میں مہارت رکھنے والوں میں شمار ہوتے ہیں‘ اب دیکھنا یہ ہے کہ بطور ٹیم لیڈر وہ کس طرح درپیش حالات میں سفارشات لاسکتے ہیں۔