وفاقی حکومت کی جانب سے5وزارتوں اور28اداروں کو بند کرنے کیساتھ ڈیڑھ لاکھ خالی اسامیاں ختم کرنے کا عندیہ دیا جا رہا ہے وزیراعظم شہبازشریف کی زیر صدارت گزشتہ روز ہونے والے ایک اہم اجلاس میں بھرتیوں پر پابندی‘ گریڈ1سے16 تک کی اسامیاں آﺅٹ سورس کرنے اور12 اداروں کو ضم کرنے کی تجویز پر بھی بات ہوئی ہے وفاقی حکومت کی جانب سے قومی خزانے پر بوجھ بننے والے اداروں کی فوری نجکاری کافیصلہ بھی کیا گیا ہے‘ جن وزارتوں کو ختم کرنے کیلئے سفارشات دی جارہی ہیں ان میں وزارت صحت‘ امور سیفران‘ صنعت و پیداوار اور انفارمیشن ٹیکنالوجی بھی شامل ہیں جہاں تک وطن عزیز میں سرکاری مشینری کے آپریشن اور عوام کو سروسز کی فراہمی کا سوال ہے تو اس میں مرکز اور صوبوں کی سطح پر بہت بڑے پیمانے کی اصلاحات ناگزیر ہیں‘ ضروری یہ بھی ہے کہ وفاق اور صوبوں کے سارے انتظامی سیٹ اپ کو جدید سہولیات سے آراستہ کیا جائے‘ ضرورت غیر ضروری اخراجات پر قابو پانے کی بھی ہے اور ملک کو درپیش اقتصادی شعبے کے چیلنجوں میں فالتو اخراجات کم کرنا بے حد ضروری ہے‘ اس سب کیساتھ مدنظر یہ بھی رکھنا ضروری ہے کہ ملک میں بے روزگاری کا مسئلہ شدت اختیار کرتا جارہاہے ایسے میں جب کارپوریٹ سیکٹر کی سرگرمیاں بھی محدود ہوں تو سارا انحصار سرکاری اداروں پر ہی رہ جاتا ہے‘ ایسے میں سرکاری بھرتیاں محدود ہونے پر مسائل میں اضافہ اسی صورت روکا جا سکتاہے جب صنعتی و تجارتی سرگرمیوں میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہو ‘جہاں تک سرکاری اداروں میں اصلاحات کا تعلق ہے تو فیصلہ سازی کے مراحل میں مدنظر رکھنا ہوگا کہ کسی بھی ریاست یا اسکی اکائی میں کوئی بھی حکومت اپنے وژن کے مطابق کام اس وقت تک نہیں کر سکتی جب تک اس کے پاس فعال سرکاری مشینری نہ ہو ‘سروسز کی فراہمی کے لئے جتنا بڑا اور جدید انفراسٹرکچر دے دیا جائے اور اس کیلئے جتنے بڑے پیمانے پر بھرتیاں بھی کرلی جائیں عوام کیلئے یہ سب صرف اسی صورت ثمر آور ثابت ہو سکتا ہے جب اسے برسرزمین ریلیف ملے‘ یہ سب اسی صورت ممکن ہے جب اصلاحات کے عمل میں دیگر اقدامات کیساتھ کڑی نگرانی کا انتظام بھی یقینی بنایا جائے خدمات کے سیکٹر میں کسی بھی صوبے میں اگر اداروں کی اپنی پیش کردہ سب اچھا کی رپورٹس پر انحصار کی روش ہی چلتی رہے تو برسرزمین حالات اور حکومتی اعدادوشمار و کارکردگی رپورٹس کے درمیان فاصلے بڑھتے ہی رہتے ہیں۔