تاخیر کا شکار قرضہ

عالمی مالیاتی ادارے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کی جانب سے پاکستان کے لئے 7 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکیج کی منظوری مزید تاخیر کا شکار ہو گئی ہے‘ تادم تحریر آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کے شیڈول میں پاکستان کا نام شامل نہیں ہے‘ مذکورہ بورڈ اپنے شیڈول کے مطابق 28 سے 30 اگست تک ویتنام سمیت 3 دیگر ممالک کی درخواستوں پر غور کرے گا‘ اس حوالے سے نجی ٹی وی کی رپورٹ میں ذرائع کے ریفرنس سے بتایا جا رہا ہے کہ دوست ممالک کی جانب سے 12 ارب ڈالر قرض بروقت رول اوور نہ ہونا اس تاخیر کی بڑی وجہ ہے۔ رپورٹس کے مطابق آئی ایم ایف نے بورڈ اجلاس سے پہلے ایکسٹرنل فنانسنگ کی یقین دہانیوں کی شرط لگا رکھی ہے‘ اس وقت پاکستان کے پاس سعودی عرب کے 5‘ چین کے 4اور یو اے ای کے 3ارب ڈالر ڈیپازٹ ہیں۔ دریں اثناء اسلام آباد سے خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق وفاقی وزارت خزانہ نے رواں مالی سال کے دوران 8500ارب روپے قرض لینے کا پلان بنایا ہے‘ اس کے ساتھ ہی عالمی مارکیٹ میں گرین جبکہ چائنیز منڈی میں پانڈا بانڈ جاری کرنے کا منصوبہ بھی بنایا جا رہا ہے۔ وطن عزیز کی اقتصادی سیکٹر میں مشکلات ایک تلخ حقیقت ہیں تاہم اس سے زیادہ تلخ بات یہ بھی ہے کہ صورتحال سے نکلنے کے لئے قرضوں کے سلسلے کو دراز کیا جا رہا ہے‘ قرض مسئلہ ہے جس کے حل کے لئے بھی قرض پر انحصار کیا جا رہا ہے‘ ذمہ دار دفاتر قرض کے حصول کے لئے کوششوں میں مصروف رہتے ہیں اور قرض ملنے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اسے معاشی حکمت عملی پر قرض دینے والوں کے اعتماد کا مظہر قرار دیا جاتا ہے‘ ایک قرض کے لئے عائد ہونے والی شرائط کا بوجھ عام شہری پر ڈالا جاتا ہے تو ساتھ ہی دوسرے قرضے کے لئے نئی شرائط پر مشتمل فہرست آ جاتی ہے‘ قرض بروقت مل رہا ہے یا نہیں قرضے رول اوور ہو رہے ہیں یا نہیں یہ سب کچھ اپنی جگہ قابل توجہ سہی‘ ضرورت اس گرداب سے نکلنے کی ہے جس کے لئے کنکریٹ حکمت عملی ناگزیر ہے۔ اس وقت قرضوں کے حصول پر خوشی منانے کی بجائے ضروری ہے کہ قرضوں کے اٹھائے جانے کے سلسلے ہی کو فل سٹاپ لگا دیا جائے‘جس کے لئے وزیراعظم شہباز شریف بھی کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ قرضوں کا سلسلہ بند ہونا چاہئے۔ اس مقصد کے لئے معیشت کو اپنے قدموں پر کھڑا کرنے کے ساتھ ضروری ہے کہ عوام کو ریلیف دینے کے لئے بھی اقدامات اٹھائے جائیں‘ اس سب کے ساتھ ضروری ہے کہ اقتصادی شعبے میں بحالی کے لئے دیگر اقدامات کے ساتھ توانائی بحران پر قابو پایا جائے تاکہ نہ صرف صنعتی‘ تجارتی اور زرعی سرگرمیوں کو فروغ حاصل ہو بلکہ مجموعی پیداواری لاگت میں بھی کمی آئے۔