پاکستان نے سعودی عرب سے ایک اعشاریہ پانچ ارب ڈالرز اضافی قرض کی درخواست کردی

پاکستان نے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کے بیل آؤٹ پیکج کے لیے درکار بیرونی مالیاتی فرق کو پورا کرنے کے لیے سعودی عرب سے قرضہ بڑھانے کی درخواست کردی ہے۔

پاکستان کی جانب سے اپنے موجودہ 5 ارب ڈالرز کے پورٹ فولیو سے ایک ارب 50 کروڑ ڈالرز کا قرضہ بڑھا کر آئی ایم ایف کے 37 ماہ کے بیل آؤٹ پیکج کے لیے بیرونی مالیاتی فرق کو کم کرنے کی غرض سے سعودی عرب سے مدد کی درخواست کی گئی ہے، تاہم یہ پیکج ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری تک زیر التوا ہے۔

باخبر ذرائع نے بتایا کہ تینوں دوستانہ دوطرفہ شراکت دار سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین کو آئی ایم ایف کو پاکستان کو دیے گئے اپنے 12 ارب ڈالرز کے قرضے کی اپنے ایگزیکٹو ڈائریکٹرز کے ذریعے تصدیق کرنا ہوگی۔

اس کے علاوہ حکومت نے وزیر خزانہ کی زیر صدارت کمیٹی کی تشکیل کا نوٹیفیکیشن جاری کیا ہے، جس میں وزیر توانائی اویس لغاری اور وفاقی وزیر علی پروز ملک سمیت دیگر شامل ہوں گے، جو کہ چینی حکام اور توانائی کے شعبے کے سرمایہ کاروں اور اسپانسرز سے چینی معاشی ایڈوائزری فرم سے مزاکرات کو آگے بڑھائیں گے۔

حکومت نے گزشتہ ماہ باقاعدہ طور پر تصدیق کی تھی کہ وفاق نے تین دوست ممالک کے ساتھ 27 ارب ڈالر سے زائد کے قرضوں اور واجبات کی ری پروفائلنگ کے عمل کو شروع کردیا ہے، جبکہ ری پروفائلنگ یا 12 ارب ڈالر رول اوور دراصل آئی ایم ایف کی جانب سے توسیعی فنڈ سہولت کے تحت مقرر کردہ شرط ہے۔

جبکہ اسلام آباد نے توانائی کے شعبے میں 15 ارب ڈالر سے زائد کے قرضوں کی ری پروفائلنگ کرنے اور درآمدی کوئلے پر مبنی منصوبوں کو مقامی کوئلے میں تبدیل کرنے کی بیجنگ سے درخواست کی ہے، تاکہ بروقت ادائیگیوں میں مشکلات کے پیش نظر مالیاتی گنجائش پیدا کی جا سکے، جس سے توانائی کے شعبے میں زرمبادلہ کے اخراج اور صارفین کے ٹیرف میں آسانی ہو۔

اس وقت پاکستان کو فراہم کرنے کے لیے سعودی عرب کے پاس 5 ارب ڈالرز، چین کے پاس 4 ارب ڈالرز اور متحدہ عرب امارات کے پاس 3 ارب ڈالرز موجود ہیں، جبکہ پاکستان نے سعودی عرب سے مزید 1 اعشاریہ 5 ارب ڈالرز کی درخواست کی ہے، جو کہ دو طرفہ تجارتی قرض کی صورت میں آنے کی توقع ہے، جبکہ یہ حفاظتی ڈیپازٹ کی صورت میں بھی ہو سکتا ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ سعودی وزیر خزانہ محمد الجدان نے اپنے ہم منصب کو اضافی مدد کی یقین دہانی کرائی ہے، تاہم آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کی تصدیق کے لیے ’عمل‘ میں وقت لگ رہا تھا۔