پاکستان میں اسرائیلی جنگی جرائم کے خلاف آواز اٹھانا جرم بنا دیا گیا ہے، مشتاق احمد

سابق سینیٹر اور جماعت اسلامی کے رہنما مشتاق احمد نے کہا ہے کہ پاکستان میں اسرائیلی جنگی جرائم کے خلاف آواز اٹھانا جرم بنا دیا گیا ہے، میں نے ڈپٹی کمشنر اور ایس پی سے خود رابطہ کر کے احتجاج کی اجازت لی تھی لیکن وہاں پولیس کے ذریعے کارروائی کر کے لوگوں پر تشدد کیا گیا۔

جماعت اسلامی کے رہنما مشتاق احمد نے رہائی کے بعد اسلام آباد پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ 325 دن گزرنے کے باوجود غزہ میں قتل عام کا سلسلہ جاری ہے، 2 لاکھ سے زائد لوگ جنگ اور جنگ سے متعلقہ حالات کی وجہ سے شہید ہوچکے ہیں، 4 ہزار لوگوں کا قتل عام کیا گیا ہے جبکہ ایک ہزار 300 اجتماعی قبریں دریافت ہو چکی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 20ہزار سے زائد ایسے زخمی بچے ہیں جن کے خاندان کے تمام افراد شہید ہو چکے ہیں، گزشتہ دنوں خان یونس کی 100سال پرانی مسجد کو شہید کردیا گیا اور وہاں موجود تمام قرآن پاک کی بے حرمتی کی گئی، مغربی کنارے میں 25سال کا سب سے بڑا حملہ کیا گیا، قید میں موجود خواتین کا ریپ کر کے ان کی ویڈیوز بنائی جاتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ فلسطین، بیت المقدس اور مغربی کنارے سے افسوسناک خبریں آ رہی ہیں لیکن عالم اسلام کے حکمرانوں اور مقتدریٰ نے شرمناک خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔

سابق سینیٹر نے کہا کہ امریکا ان بھیانک انسانیت سوز جرائم کا براہ راست ذمے دار ہے کیونکہ وہ اسرائیل کو 50ہزار ٹن کا اسلحہ دے چکا ہے، یورپی یونین اسلحہ دے رہا ہے، بھارت میں بنا اسلحہ اسرائیل استعمال کررہا ہے اور یہ سب مل کر وہاں جنگی جرائم کا ارتکاب کررہے ہیں اور ہم سب سمجھتے ہیں کہ عالم اسلام کے حکمران اس جرم میں شریک کار اور سہولت کار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سیو غزہ مہم کے ساتھ جو کل ہوا یہ پہلا واقعہ نہیں، اس سے پہلے بھی ہم پر تشدد کیا جا چکا ہے، ہمارے دو ساتھی شہید کر دیے گئے، ہمارے سامان قبضے میں لے لیے گئے، ایف آئی آر تک درج نہیں کی گئی جبکہ فیصل آباد میں بچے بچیوں پر بدترین تشدد کر کے ان کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں فلسطین میں جاری جنگی جرائم کے خلاف آواز اٹھانا جرم قرار دیا گیا ہے اور جو لوگ اسرائیل مردہ آباد اور فلسطین زندہ آباد کی آواز اٹھاتے ہیں ان پر تشدد کیا جاتا ہے۔

مشتاق احمد کل میں نے خود ڈپٹی کمشنر عثمان اور ایس پی خانزیب سے رابطہ کر کے احتجاج کی اجازت لی تھی اور ان کے ساتھ یہ طے ہوا تھا کہ ہم غزہ چوک میں پرامن پروگرام کریں گے، یہ گرین بیلٹ پر ہو گا اور روڈ کی بندش نہیں ہو گی اور ہم احتجاج ریکارڈ کرا کر چلے جائیں گے لیکن وہاں پولیس کے ذریعے کارروائی کر کے لوگوں پر تشدد کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ میں تشدد کی مذمت کرتا ہوں، یہ فسطائیت ہے، یہ پولیس گردی اور اسرائیل نوازی ہے، امریکا کی خوشنودی ہے اور قائد اعظم اور علامہ اقبال کی فلسطین پالیسی سے انحراف کے ساتھ ساتھ مسلمان غزہ کے حوالے سے مذاق اڑایا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پریس میں جو بیان رپورٹ ہو رہا ہے ہم نے ایسا کوئی حلفیہ بیان نہیں دیا کہ یہاں احتجاج نہ کرنے کی یقین دہانی پر ہم نے انہیں رہا کر دیا ہے، میں چیلنج کرتا ہوں کہ وہ یقین دہانی دکھائیں، اسلام آباد پولیس حکومتی دہشت گردی اور فاشزم کا اتکاب کرنے کے بعد دھڑلے سے جھوٹ بھی بولتی ہے، کوئی حلف نامہ نہیں دیا، کوئی وعدہ نہیں کیا گیا۔

جماعت اسلامی کے رہنما نے کہا کہ ہم اسلام آباد میں کسی بھی دن احتجاج کا حق محفوظ رکھتے ہیں، ہم کسی بھی دن اور کسی بھی مقام پر احتجاج کر سکتے ہیں اور کسی بھی حکومتی رکاوٹ کو خاطر میں نہیں لائیں گے۔

انہوں نے آئندہ جمعہ کو پاکستان بھر کے عوام سے غزہ سے اظہار یکجہتی کے لیے احتجاج کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ غزہ میں جاری جنگ مسجد اقصیٰ اور حرمین شریفین کی دفاع کی جنگ ہے اور خدانخواستہ اگر یحییٰ سنوار، حماس اور غزہ کے عوام ناکام ہو گئے تو ناصرف مسجد اقصیٰ کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا بلکہ حرمین شریفین کا دفاع بھی مشکل ہو جائے گا اور ہر مسلمان کی ذمے داری ہے کہ اس میں حصہ ڈالے۔

سابق سینیٹر نے کہا کہ میں تمام علما، مشائخ، سماجی تنظیموں، دینی تحاریک سے اپیل کرتا ہوں کہ آئندہ جمعہ کو مسجد اقصی، غزہ اور فلسطین میں بدترین ظلم پر جمعہ کے خطبات میں احتجاج کریں اور تمام مسلمان اور علما ہر قسم کی تفریق سے بالاتر ہو کر بھرپور آواز اٹھائیں اور مسجد اقصیٰ اور فلسطین کے لیے مظاہرے کریں۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز اسلام آباد میں غزہ مارچ کے دوران پولیس نے سابق سینیٹر اور جماعت اسلامی کے رہنما مشتاق احمد اور ان کی اہلیہ کو گرفتار کر لیا گیا تھا تاہم رات گئے ان کو رہا کردیا گیا تھا۔

اسلام آباد پولیس نے کہا تھا کہ مشتاق احمد کو دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر حراست میں لیا گیا کیونکہ ایکسپریس چوک میں احتجاج کرنے یا پھر مجمعہ جمع کرنے کی اجازت نہیں ہے۔