سیاست کے میدان سے گرما گرم خبریں آ رہی ہیں‘ وطن عزیز میں سیاسی تناؤ اور کشمکش کا سلسلہ عرصے سے جاری ہے‘ اس میں کسی نہ کسی ایشو پر اچانک بیانات کا سلسلہ حد اعتدال کو عبور کر دیتا ہے تاہم چند روز بعد پھر عارضی خاموشی ہے‘ سیاسی تناؤ میں الفاظ اس گولہ باری کے جاری سلسلے کے ساتھ وطن عزیز کی معیشت کو بھی مسلسل مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے‘ اس حوالے سے تلخ زمینی حقائق بھی موجود ہیں جبکہ درپیش منظر نامے میں حکومت کی جانب سے اصلاح احوال کے لئے اقدامات کی یقین دہانیاں بھی سامنے آتی رہتی ہیں‘ اقتصادی اشاریے بھی حوصلہ افزا ہیں تاہم برسرزمین حقائق یہ بھی بتا رہے ہیں کہ غریب عوام کے لئے زندگی اجیرن ہو چکی ہے‘ حکومت کی جانب سے اصلاح احوال کیلئے اقدامات میں 6 وزارتوں کو ختم کرنے کیساتھ متعدد مزید اداروں کی نجکاری کا عندیہ دیا جا رہا ہے‘ تاہم اس صورت میں ملازمین کا تحفظ یقینی بنایا جانا ضروری ہے‘ وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب کا کہنا ہے کہ ملک میں معیشت کو دستاویزی شکل دینا ضروری ہو چکا ہے‘ اس سب کے ساتھ وزیر خزانہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کے ساتھ قرض کا نیا پروگرام آخری ہو گا۔ درپیش صورتحال ایک جانب متقاضی ہے کہ سیاسی درجہ حرارت کو اعتدال میں لایا جائے اور اس ضمن میں سینئر قیادت اپنا مؤثر کردار ادا کرے۔ دوسری طرف ضرورت ہے کہ موجودہ گرداب سے معیشت کو نکالنے کے لئے ٹھوس حکمت عملی ترتیب دی جائے‘ برسوں کا بگاڑ دوچار اجلاسوں اور چند اعلانات کے ساتھ نہیں سنوارا جا سکتا‘ اس مقصد کے لئے مربوط لائحہ عمل ترتیب دینا ہو گا‘ یہ سب اسی صورت ممکن ہے جب فیصلہ سازی اور منصوبہ بندی کے سارے عمل میں حقائق کو مدنظر رکھا جائے‘ صرف وہ اہداف ترجیحات میں رکھے جائیں کہ جن کا حصول مقررہ مدت میں ممکن ہو۔ اس حقیقت سے صرف نظر ممکن نہیں کہ پہلے تو ٹیکس نیٹ میں آنے والے لوگوں کی رجسٹریشن ہی مکمل نہیں‘ سیلز ٹیکس کے اندر صرف 14 فیصد ریٹیلر رجسٹرڈ ہیں جبکہ دوسری جانب فیڈرل بیورو آف ریونیو کا اب یہ بھی کہنا ہے کہ آڈٹ کرنا اس کے دائرہ اختیار ہی میں نہیں جس کے لئے حکومت نے اب 2 ہزار چارٹر اکاؤنٹنٹ بھرتی کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے‘ حکومتی ادارے اصلاح احوال کے زمرے میں یہ بھی بتاتے ہیں کہ گرانی کی شرح کم ہو گئی ہے اور اس حوالے سے اعداد و شمار بھی پیش کئے جا رہے ہیں جبکہ اوپن مارکیٹ میں صورتحال برعکس ہے‘ اس حوالے سے ضروری ہے کہ مارکیٹ کنٹرول کا نظام مؤثر بنایا جائے‘ مدنظر رکھنا ہو گا کہ جب تک عملی طور ریلیف نہ ہو تو عوام کے لئے سب اعلانات بے معنی رہ جاتے ہیں۔