تحمل اور برداشت کی ضرورت



وطن عزیز کی سیاست میں گرما گرمی اور تناﺅ کا گراف مسلسل بڑھتا چلا جا رہاہے‘ اس سارے منظرنامے میں کون درست اور کون غلط کی بحث میں پڑے بغیر ضرورت درجہ حرارت کو اعتدال میں لانے اور وہ تمام معاملات جو بات چیت کے ذریعے سلجھائے جا سکتے ہیں ان کیلئے مل بیٹھ کر بات کرنے کا انتظام ضروری ہے‘ سیاست میں اختلاف رائے معمول کا حصہ ہے اس کو صرف اعتدال میں رکھنے کی ضرورت ہے سیاسی عمل میں گرما گرمی بھی اگر معمول ہے تو معاملات کو مل بیٹھ کر یکسو کرنا بھی معمول ہی کا حصہ گردانا جا سکتا ہے‘ جس کیلئے درپیش حالات متقاضی بھی ہیں ‘گرما گرمی تناﺅ اور سخت کشمکش کے شکار سیاسی ماحول میں اس برسرزمین حقیقت سے چشم پوشی کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں کہ ملک کو اس وقت مختلف شعبوں میں سنگین چیلنجوں کا سامنا ہے ان چیلنجوں میں خصوصاً معیشت کے سیکٹر میں درپیش مشکلات کے اثرات میں عوام بری طرح متاثر ہے گرانی نے غریب اور متوسط شہریوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے عام شہری کیلئے اپنے گھریلو اخراجات پورے کرنا بھی ممکن نہیں رہا بے روزگاری اپنی جگہ اذیت ناک صورت اختیار کئے ہوئے ہے بنیادی شہری سہولیات کا فقدان ہے جبکہ خدمات کے اداروں میں لوگ سروسز نہ ملنے پر مایوسی کا شکار ہیں توانائی بحران تشویشناک ہوتا چلا جارہاہے بھاری بل ادا کرنے والے صارفین موسم کی شدت میں بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ کے ہاتھوں مشکلات کا سامنا کرنے پر مجبور ہیں ملک کو دیگر درپیش چیلنجوں کے ساتھ عالمی منظرنامے میں ہونے والی تبدیلیاں بھی متقاضی ہیں کہ ان کے تناظر میں محفوظ حکمت عملی اپنائی جائے اس سب کیلئے قومی قیادت کا ایک دوسرے کاموقف سن کر قابل عمل پالیسی ترتیب دینا ناگزیر ہے جس کیلئے تحمل اور برداشت کی ضرورت ہے اس سب کیلئے سینئر قومی قیادت کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
نقصانات کا انتظار کیوں؟
عالمی ادارہ صحت نے ڈینگی‘ چکن گونیا اور زیکا وائرس کے پھیلاﺅ سے متعلق وارننگ جاری کردی ہے عالمی ادارے نے یہ بھی بتایا ہے کہ اب کی بار متاثرین کی تعداد زیادہ ہونے کا خدشہ بھی ہے ‘ڈبلیو ایچ او کی جانب سے وارننگ کے ساتھ ہی ضروری ہے کہ تمام متعلقہ ادارے فوری طور پر اپنے اپنے لیول پر اقدامات یقینی بنائیں ‘اس ضمن میں کسی بڑے نقصان کا انتظار نہ کیا جائے ہمارے ہاں بیماریاں پورے طور پر پھیل جائیں تو ان کے تدارک سے متعلق اجلاس بلائے جاتے ہیں تب تک بھاری نقصانات ہو چکے ہوتے ہیں۔