خاموشی کا ایک سال؟

غزہ پر اسرائیلی مظالم کے جاری سلسلے کو ایک سال مکمل ہوگیا‘ اس دوران اسرائیل نے اپنی بربریت کے دائرے کو لبنان تک وسیع بھی کردیا غزہ میں ہزاروں فلسطینیوں کو نشانہ بنایا گیا جن میں بچے اور خواتین بڑی تعداد میں شامل ہیں‘اسرائیل نے اپنے مظالم کے جاری سلسلے میں ہسپتالوں کو بھی نشانہ بنایا جبکہ پناہ گزین کیمپوں پر بھی بمباری سے دریغ نہیں کیا اس سارے منظرنامے میں عالمی ادارہ اور خود کو طاقتور کہنے والے ممالک صرف چند قراردادوں تک محدود رہے۔وزیراعظم پاکستان شہبازشریف نے گزشتہ دنوں اقوام متحدہ کے اجلاس میں اس حوالے سے دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ فلسطینی بچے زندہ دفن ہو رہے ہیں‘ جل رہے ہیں اور دنیا تماشائی بنی ہوئی ہے‘شہبازشریف کا کہنا ہے کہ صرف مذمت کرنا کافی نہیں ہمیں اس خونریزی  کو فوری روکنا ہوگا‘ غزہ میں اسرائیل کے جاری مظالم کے خلاف فعال کردار خود اسلامی ممالک کی نمائندہ تنظیم نے بھی ادا نہیں کیا‘ دوسری جانب مقبوضہ کشمیر میں بھارت اپنے مظالم کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے‘ مقبوضہ وادی کو جیل بنا کر رکھنے والا بھارت کشمیر سے متعلق اقوام متحدہ کی قراردادوں کو ایک عرصے سے سردخانے میں ڈالے ہوئے ہے بھارت انسانی حقوق کیلئے بنائے گئے قاعدے قانون کو بھی روند رہا ہے ایسے میں خاموشی اختیار کرنے پر خود عالمی ادارے کی ساکھ اور اسکی قراردادوں کی قدر و قیمت متاثر ہو رہی ہے کیا ہی بہتر ہو کہ عالمی برادری‘ اپنے کو طاقتور کہنے والے ممالک اور اسلامی ممالک کی نمائندہ تنظیم اب ان معاملات پر خاموشی توڑتے ہوئے اپنا فعال کردار ادا کریں۔
بجلی کی ترسیل کا نظام
صوبے کے دارالحکومت پشاور میں ہفتہ کی سہ پہر آندھی اور بارش کے نتیجے میں مختلف علاقوں میں بجلی کی سپلائی معطل ہوئی‘مرکزی شارع جی ٹی روڈ کے بعض علاقوں میں بجلی اگلے روز یعنی اتوار کی دوپہر کو صحیح طور پر بحال ہوئی‘معمولی آندھی اور بارش میں بجلی کی ترسیل متاثر ہونے پر بھاری بل ادا کرنے کے باوجود لوڈشیڈنگ کی اذیت برداشت کرنے والے شہریوں کو اضافی وقت کے لئے بجلی کی معطلی کے باعث شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس حوالے سے اصلاح احوال کی جانب توجہ ناگزیر ہے تاکہ صارفین کی مشکلات کا ازالہ ممکن ہو سکے۔