ملک میں سیاست کا میدان گرم ہے‘ نت نئے بیانات کا سلسلہ جاری ہے جبکہ اس سارے منظرنامے میں ملک کا غریب شہری اپنے ریلیف کا انتظار ہی کر رہا ہے‘حکومت کے ذمہ دار دفاتر قرضوں کے اجراء پر جاری ہونے والی مطالبات کی فہرست پر عملدرآمد میں مصروف ہیں دریں اثناء اس پریشان کن صورتحال میں حکومت کی جانب سے مہنگائی میں کمی کی خوشخبری اور اس کی شرح کم ہو کر4.9 فیصد ہونے کا بتایا جارہا ہے جس کے اوپن مارکیٹ میں برسرزمین نتائج کا انتظار ہی ہورہاہے‘ دریں اثناء عالمی مالیاتی ادارے کی ایک اور شرط پر عملدرآمد سے متعلق تیاریاں شروع ہو رہی ہیں‘ خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق حکومت نے سرکاری ملازمین کیلئے ریٹائرمنٹ کی عمر60 سے کم کر کے55 سال کرنے پر غور شروع کردیا ہے حکومت کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے50ارب روپے سالانہ کی بچت بھی ہوگی اور یہ کہ پنشن ادائیگی کے سال کم ہو جائینگے‘ اگر اس مطالبے پر عمل ہوتا ہے تو ملازمین کی ایک بڑی تعداد کو ریٹائر کرنے کیساتھ واجبات کی مد میں ایک بھاری ادائیگی بھی کرنا ہوگی‘ آئی ایم ایف کی جانب سے ڈومور کے جاری سلسلے میں 1ارب 10کروڑ ڈالر کی دوسری قسط کیلئے مطالبات میں افسروں اور ان کی فیملی کے اثاثے ظاہر کرنے کا بھی کہا جارہا ہے‘ اس سب کیساتھ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ گورننس اور کرپشن سے متعلق رپورٹ بھی جاری کی جائے گی‘ افسروں اور ان کی فیملیز کے اثاثوں سے متعلق تفصیلات کیلئے ڈیڈ لائن فروری2025ء تک کردی گئی ہے آئی ایم ایف کی جانب سے یہ بھی کہا جا رہاہے کہ ملک میں زرمبادلہ کے ذخائر 3ماہ کے درآمدی بل کے مساوی رکھنا ہونگے جبکہ محصولات کا ہدف بھی حاصل کرنے کا کہا جا رہا ہے‘ وفاقی وزیر خزانہ پوری درپیش صورتحال میں بتا رہے ہیں کہ شرح سود میں کمی بھی متوقع ہے جبکہ دو خسارے سرپلس میں بھی جاچکے ہیں اس وقت ذمہ دار دفاتر کی جانب سے ساری کوششیں آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے میں صرف ہو رہی ہیں جبکہ ضرورت قرضوں پر سے انحصار ختم کرنے کیلئے انتھک کوششوں کی ہے تاکہ شرائط کی نوبت ہی نہ آئے‘ساتھ ہی ضرورت عوام کیلئے عملی طور پر ریلیف یقینی بنانا بھی ضروری ہے‘ بصورت دیگر کتابوں میں مہنگائی جتنی کم ہو اور عوامی فلاح کیلئے جس قدر اقدامات اٹھائے جائیں لوگوں کو عملی طور پر ریلیف کا کوئی احساس نہیں ہوگا۔