پشاور کی کل جماعتی کانفرنس



سیاسی گرما گرمی اور ایک دوسرے کے خلاف بیانات کے متن میں پڑے بغیر پشاور میں ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس کے اعلامیہ میں شامل متعدد نکات ایسے ہیں کہ جن پر شاذ ہی کوئی اختلاف کی گنجائش ہوگی‘ امن کے قیام پر کسی کو کوئی اعتراض ہو ہی نہیں سکتا ‘مرکز ہو یا صوبہ اس حوالے سے سب ایک ہی رائے رکھتے ہیں نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ اور صوبے کے وسائل میں اضافہ بھی سب ہی کی خواہش اور کوشش ہے‘ اسی طرح صوبے کا حصہ بننے والے نئے اضلاع کیلئے وعدے کے مطابق فنڈ کا مطالبہ بھی عرصے سے ہو رہا ہے جہاں تک خیبرپختونخوا کے پختون لوگوں کو بے جا تنگ کرنے کا سوال ہے تو اس پر بھی کوئی دوسری رائے نہیں اور وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا اعلیٰ امین گنڈا پور اس حوالے سے خط پہلے ہی بھجوا بھی چکے ہیں‘ 14نکاتی اعلامیہ کے جو بھی پوائنٹ سب کیلئے قابل قبول ہیں ان پر کام کیساتھ جن نکات پر اختلاف ہے ان پر بھی بات ہو سکتی ہے جس میں ہر کوئی کھلے دل کیساتھ اپنا موقف پیش کرے اور اس طرح صوبے کے مسائل کا حل اور واجبات کی وصولی کیلئے راہ ہموار ہو سکے اس وقت وطن عزیز کا سیاسی منظرنامہ گرما گرمی کا شکار ہے اس گرماگرمی کے ساتھ ملک کو اکانومی سمیت متعدد شعبوں میں سخت مشکلات کاسامنا ہے خیبرپختونخوا کا کیس اس سارے ماحول میں بعض حوالوں سے انفرادیت کا حامل بھی ہے اس صوبے کا جغرافیہ اس کی مجموعی اقتصادیات پر پوری طرح اثر انداز ہے بندرگاہ سے دور یہ صوبہ افغانستان پر روس کی یلغار کے ساتھ1979ءسے متاثر چلا آرہا ہے لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی کے ساتھ بھی اس صوبے کی اقتصادی حالت مزید متاثر ہوئی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں خیبرپختونخوا فرنٹ لائن قرار پایا‘ امن و امان کی صورتحال کے باعث ماضی قریب میں یہاں صنعتی و تجارتی سرگرمیاں بری طرح متاثر ہوئیں خیبرپختونخوا کی پوری پوری صنعتی بستیوں میں تالے لگے اور لوگ اپنا سرمایہ یہاں سے منتقل کرنے پر مجبور ہوئے‘ صوبے کی معیشت پر قرضوں کا بوجھ پڑا جبکہ صوبے کے اپنے واجبات عرصے سے وفاق کے ذمے چلے آرہے ہیں صوبے کیلئے بجلی کی رائلٹی کی شرح نئے کلئے کے تحت کرنے کا معاملہ بھی عرصے سے یکسو ہونے کا متقاضی ہے‘ کیا ہی بہتر ہو کہ صوبے کی حکومت اور دیگر تمام سیاسی جماعتیں برسرزمین حقائق کی روشنی میں اقدامات یقینی بنائیں ایک دوسرے کے موقف کو سنا جائے اور ایک بہتر حکمت عملی کے تحت آگے بڑھا جائے۔
ہفتہ4جمادی الثانی 1446ھ 07 دسمبر 2024ء
پشاور کی کل جماعتی کانفرنس
سیاسی گرما گرمی اور ایک دوسرے کے خلاف بیانات کے متن میں پڑے بغیر پشاور میں ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس کے اعلامیہ میں شامل متعدد نکات ایسے ہیں کہ جن پر شاذ ہی کوئی اختلاف کی گنجائش ہوگی‘ امن کے قیام پر کسی کو کوئی اعتراض ہو ہی نہیں سکتا ‘مرکز ہو یا صوبہ اس حوالے سے سب ایک ہی رائے رکھتے ہیں نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ اور صوبے کے وسائل میں اضافہ بھی سب ہی کی خواہش اور کوشش ہے‘ اسی طرح صوبے کا حصہ بننے والے نئے اضلاع کیلئے وعدے کے مطابق فنڈ کا مطالبہ بھی عرصے سے ہو رہا ہے جہاں تک خیبرپختونخوا کے پختون لوگوں کو بے جا تنگ کرنے کا سوال ہے تو اس پر بھی کوئی دوسری رائے نہیں اور وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا اعلیٰ امین گنڈا پور اس حوالے سے خط پہلے ہی بھجوا بھی چکے ہیں‘ 14نکاتی اعلامیہ کے جو بھی پوائنٹ سب کیلئے قابل قبول ہیں ان پر کام کیساتھ جن نکات پر اختلاف ہے ان پر بھی بات ہو سکتی ہے جس میں ہر کوئی کھلے دل کیساتھ اپنا موقف پیش کرے اور اس طرح صوبے کے مسائل کا حل اور واجبات کی وصولی کیلئے راہ ہموار ہو سکے اس وقت وطن عزیز کا سیاسی منظرنامہ گرما گرمی کا شکار ہے اس گرماگرمی کے ساتھ ملک کو اکانومی سمیت متعدد شعبوں میں سخت مشکلات کاسامنا ہے خیبرپختونخوا کا کیس اس سارے ماحول میں بعض حوالوں سے انفرادیت کا حامل بھی ہے اس صوبے کا جغرافیہ اس کی مجموعی اقتصادیات پر پوری طرح اثر انداز ہے بندرگاہ سے دور یہ صوبہ افغانستان پر روس کی یلغار کے ساتھ1979ءسے متاثر چلا آرہا ہے لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی کے ساتھ بھی اس صوبے کی اقتصادی حالت مزید متاثر ہوئی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں خیبرپختونخوا فرنٹ لائن قرار پایا‘ امن و امان کی صورتحال کے باعث ماضی قریب میں یہاں صنعتی و تجارتی سرگرمیاں بری طرح متاثر ہوئیں خیبرپختونخوا کی پوری پوری صنعتی بستیوں میں تالے لگے اور لوگ اپنا سرمایہ یہاں سے منتقل کرنے پر مجبور ہوئے‘ صوبے کی معیشت پر قرضوں کا بوجھ پڑا جبکہ صوبے کے اپنے واجبات عرصے سے وفاق کے ذمے چلے آرہے ہیں صوبے کیلئے بجلی کی رائلٹی کی شرح نئے کلئے کے تحت کرنے کا معاملہ بھی عرصے سے یکسو ہونے کا متقاضی ہے‘ کیا ہی بہتر ہو کہ صوبے کی حکومت اور دیگر تمام سیاسی جماعتیں برسرزمین حقائق کی روشنی میں اقدامات یقینی بنائیں ایک دوسرے کے موقف کو سنا جائے اور ایک بہتر حکمت عملی کے تحت آگے بڑھا جائے۔