خیبرپختونخوا کے واجبات

گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی نے گزشتہ روز اس جانب توجہ مبذول کروائی ہے کہ صوبہ ابھی تک اپنے لئے پانی کا حصہ تک حاصل نہیں کر سکا‘ گورنر اس بات کی نشاندہی بھی کرتے ہیں کہ آبی وسائل پر بھرپور توجہ دی جاتی تو آج وانا سمیت کسی علاقے میں زمین بنجرنہ ہوتی‘ وطن عزیز کی سیاست عرصے سے گرما گرمی کا شکار چلی آرہی ہے سیاسی درجہ حرارت ایک سے زیادہ مرتبہ الیکشن ہونے پر بھی کم نہیں ہو پایا ایوان میں حزب اقتدار اور اپوزیشن کے بنچ تبدیل بھی ہوئے‘اس کے باوجود سیاسی تناؤ اور کشمکش کی کیفیت میں کمی نہ آسکی‘ اگر سیاسی تناؤ اور گرما گرمی کو جمہوری  عمل کا حصہ قرار بھی دیا جائے تو بھی اس کے درجہ حرارت کو حد اعتدال میں رکھنا اور کم از کم اہم قومی معاملات پر مل بیٹھ کر بات کرنے کی گنجائش ضروری ہوتی ہے‘خیبرپختونخوا کا جغرافیہ اور یہاں درپیش حالات انفرادیت رکھتے ہیں لاکھوں افغان مہاجرین کا میزبان یہ صوبہ امن و امان کے حوالے سے بھی سنگین چیلنجوں کا سامنا کررہاہے صوبے میں تعمیر و ترقی اور عوام کو سہولیات کی فراہمی کے ساتھ بے روزگاری کے خاتمے کیلئے کنکریٹ حکمت عملی کی ضرورت چلی آرہی ہے اس کیلئے فنڈز کا جہاں تک سوال ہے تو صوبے کے اپنے پن بجلی منافع اور دوسرے سیکٹرز کے بھاری واجبات وفاق کے ذمے چلے آرہے ہیں اس میں حکومتوں کی بار بار تبدیلیوں سے بھی اصلاح احوال کی جانب کوئی بڑی پیش رفت نہیں دیکھی گئی پن بجلی منافع کی شرح کا تعین بھی ہونا باقی ہے جس کیلئے فارمولا عرصہ ہوا اے جی این قاضی فارمولے کے نام سے سرکاری فائلوں میں موجود ہے صوبے میں وسیع بنجر اراضی سیراب کرنے کیلئے موثر حکمت عملی کی ضرورت اپنی جگہ ہے پانی کی تقسیم میں صوبے کا شیئر حاصل  ہونا باقی ہے جس کیلئے گورنر فیصل کریم کنڈی نے گزشتہ روز توجہ مبذول کروائی ہے‘ اس برسرزمین حقیقت کو جاننا ضروری ہے کہ وطن عزیز کو زرعی ملک قرار دیا جاتا ہے‘آبادی کے بڑے حصے کا انحصار زراعت پر ہے‘ ملک میں نہری نظام کو مثالی قرار دیا جاتا ہے اس سب کے باوجود ملکی درآمدات میں زرعی اجناس کی بڑی مقدار شامل ہے جس سے امپورٹ بل کا حجم بہت بڑھ جاتا ہے‘ چاہئے تو یہ کہ خود پاکستان گندم اور دوسری زرعی اجناس برآمد کرکے زرمبادلہ حاصل کرے‘ زراعت کے حوالے سے خیبرپختونخوا میں وسیع بنجر اراضی سیراب کرنے کی گنجائش موجود ہے ایسے میں اگر پانی مل جاتا ہے ثمر آور نتائج کا حصول ممکن ہے کیا ہی بہتر ہو کہ سیاسی گرما گرمی کیساتھ کم از کم اہم معاملات کو مل بیٹھ کر یکسو کیا جائے۔