تصویر کا حقیقی رخ

 وطن عزیز کے سخت تناؤ اور کشمکش کا شکار سیاسی منظرنامے میں متعدد سیکٹرز میں شدید چیلنجوں کا سامنا بھی چلا آرہا ہے جہاں تک اس ساری صورتحال  میں اصلاح احوال کی جانب بڑھنے کا سوال ہے تو اس ضمن میں ذمہ دار دفاتر کی جانب سے وقتاً فوقتاً پیش ہونے والے اعدادوشمار اور رپورٹس اس قدر حوصلہ افزاء ہوتی ہیں کہ لوگ ان کو دیکھتے ہوئے اچھے دنوں کی آس لگا کر بیٹھ جاتے ہیں یہ بات بھی حقائق کا حصہ ہے کہ مرکز اور صوبوں میں برسراقتدار حکومتیں عوام کی فلاح و بہبود اور تعمیر و ترقی کے حوالے سے کم اور زیادہ کے فرق سے اقدامات اٹھاتی ہی چلی آرہی ہیں تاہم حکومتی اعلانات اور اقدامات کے برسرزمین ثمر آور عملی نتائج کے درمیان فاصلے ہمیشہ زیادہ ہی رہے ہیں اس حقیقت سے صرف نظر ممکن ہیں کہ کسی بھی ریاست یا اسکی کسی بھی اکائی میں حکومتی اقدامات اس صورت ہی بہتر نتائج دے سکتے ہیں جب اس سب پر عملدرآمد کی ذمہ دار سرکاری مشینری پوری طرح فعال ہو‘جب چیک اینڈ بیلنس کا موثر نظام کام کر رہا ہو جب حکومتی اقدامات پر عملدرآمد کے تمام مراحل کسی ٹائم فریم کے پابندہوں اگر سارا انحصار صرف اجلاسوں میں پیش ہونے والے اعدادوشمار پر بھی ہو تو عملی نتائج عوام کیلئے کسی صورت ثمر آور ثابت نہیں ہو پاتے‘ اس لئے ضروری ہے کہ اس روش کو ترک کرتے ہوئے برسرزمین حقائق تک رسائی یقینی بنائی جائے۔جہاں تک بات خیبرپختونخوا کی ہے تو یہاں درپیش صورتحال دوسرے صوبوں سے قدرے مختلف ہے صوبے کا جغرافیہ‘ امن و امان کی صورتحال لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی صوبے کا حصہ بننے والے قبائلی اضلاع میں تعمیر و ترقی اس صوبے میں بڑے ٹاسک ہیں اس سب کیساتھ عوام کو درپیش سنگین مشکلات کا خاتمہ بھی ناگزیر بلکہ اولین ترجیحات کا حصہ ہے‘ اس ضمن میں حکومتوں کی سطح پر اعلانات اور مختلف سکیٹرز میں اقدامات سب اپنی جگہ قابل اطمینان ضرور ہیں تاہم اصل ضرورت ان کے عملی نتائج کی ہے کہ جن کے ساتھ عوام کو ریلیف کا احساس ہوپائے‘ یہ سب اسی صورت ممکن ہے کہ تلخ سہی حقائق کا ادراک و احساس ضرور کیا جائے اس وقت عوام کو مارکیٹ میں مصنوعی گرانی ملاوٹ اور ذخیرہ اند وزی کا سامنا ہے تعلیم اور علاج کی سہولیات معیار کیساتھ دستیاب نہیں‘ میونسپل سروسز کا فقدان ہے رہائشی سہولیات نہ ہونا اذیت ناک ہے‘بے روزگاری اور غربت پریشان کن ہے شرط صرف حقائق کو سامنے رکھنے کی ہے سب اچھا ہے کی رپورٹس پر انحصار ختم کرنا ضروری ہے۔