وطن عزیز میں مرکز اور صوبوں میں برسراقتدار حکومتیں عوام کی فلاح و بہبود اور ملک کی تعمیر و ترقی کیلئے بہت سارے اعلانات کرتی ضرور ہیں تاہم ان کے برسرزمین ثمر آور نتائج بہت ہی کم کیسوں میں دیکھنے کو ملتے ہیں‘ حکومتوں کا انحصار سرکاری دفاتر سے ملنے والی رپورٹس پر ہی رہتا ہے جن میں بتایا جاتا ہے کہ سب اچھا ہے اور لوگ حکومتی اقدامات سے پوری طرح مطمئن ہیں‘ ہر طرف چین ہی چین ہے بتایا یہ بھی جاتا ہے سرکاری اداروں کی کارکردگی شاندار ہے اور سروسز کا معیار بھی بہت اچھا ہے ائرکنڈیشنڈ کمرے میں ملٹی میڈیا کے ذریعے بریفنگ میں سب اچھا ہے کی رپورٹس پر اطمینان کا اظہارمعمول کا حصہ ہے دوسری جانب ملک میں عام شہری اصلاح احوال اور عملی طور پر ریلیف ہی کا منتظر دکھائی دیتا ہے‘ ملک کے درپیش سیاسی منظرنامے میں خیبرپختونخوا کے اندر گرماگرمی نسبتاً زیادہ ہے‘ نت نئے سیاسی بیانات اور انکشافات کا سلسلہ تیزی سے جاری ہے اس پورے ماحول میں عام شہری اپنے مسائل کے حل کیلئے ٹھوس عملی اقدامات کا منتظر ہے کہ جس میں بات صرف بیانات اور کاغذی کاروائی تک محدود نہ رہے ملک کی مجموعی اقتصادی حالت کے نتیجے میں مہنگائی نے غریب کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے تاہم اس کے ساتھ مارکیٹ کنٹرول کیلئے موثر انتظام نہ ہونے پر جو کہ صوبے میں اضلاع کی سطح پر انتظامیہ کا کام ہے مصنوعی مہنگائی نے عوام کو اذیت کا شکار بنا کر رکھ دیا ہے‘ مارکیٹ کنٹرول کیلئے ذمہ دار دفاتر کی کاروائیاں صرف کبھی کبھار کے چند چھاپوں تک محدود ہیں جو اہم تجارتی مراکز ہی میں مارے جاتے ہیں باقی گلی محلے کی سطح پر پوری مارکیٹ ہر قاعدے قانون سے مکمل طورپر آزاد ہے‘ نرخناموں کا اجراء معمول کی دفتری کاروائی بن چکا ہے ان پر عملدرآمد کیلئے جس کڑی نگرانی کے انتظام کی ضرورت ہے وہ کہیں بھی دکھائی نہیں دیتا‘ مصنوعی مہنگائی کیساتھ مضر صحت ملاوٹ کا دھندہ کھلے عام جاری ہے‘ اس حوالے سے کبھی کبھار ہی سہی جو کاروائی ہوتی ہے اس میں ہونے والے انکشاف اور ملاوٹ سے صحت و زندگی کو لاحق ہونے والے نقصانات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے‘میونسپل سروسز کا فقدان ہے‘پینے کے پانی کا معیار سوالیہ نشان ہے‘بہت سارے ہسپتالوں میں مریض ٹھوکریں کھانے کے بعد اکثر پرائیویٹ اداروں کو جانے پر مجبور ہوتے ہیں‘تعلیم کے معیار پر خود ذمہ دار دفاتر کا عدم اطمینان ہی ہوتا رہتا ہے اسی طرح دیگر شعبوں میں بھی اصلاح احوال کی ضرورت ہے‘ کیا ہی بہتر ہو کہ سب اچھا ہے پر انحصار چھوڑ کر ارضی حقائق جاننے کی کوشش کی جائے۔