اس حقیقت سے چشم پوشی کسی صورت ممکن نہیں کہ ناقص اور تکنیکی مہارت سے عاری منصوبہ بندی‘ ذاتی پسند ناپسند کی بنیاد پر پراجیکٹس کی منظوری‘ ورک فورس کی تعیناتی میں میرٹ کی بجائے سفارش اور دباؤ کو ترجیح دینا مسائل کی شدت میں اضافے کے عوامل میں‘ اس وقت سیاسی درجہ حرارت ٹھنڈے موسم میں بھی بڑھتا ہی رہتا ہے‘ اس میں رابطے‘ ملاقاتیں اور گرما گرم باتیں معمول کا حصہ ہیں جبکہ دوسری جانب عوامی مسائل کا گراف مسلسل بڑھتا چلا جا رہا ہے‘ صوبے کے دارالحکومت پشاور میں بڑے بڑے اعلانات اور منصوبوں کے باوجود عوام کی مشکلات بڑھتی چلی جارہی ہیں‘دیگر تمام مسائل اور مشکلات کے ساتھ سٹریٹ کرائمز کی شرح میں اضافہ تشویشناک ہوتا چلا جارہاہے‘ عام شہری مہنگا موبائل فون اور نقدی لے کر گھر سے نکلنے پر اپنے آپ کو غیر محفوظ تصور کرتا ہے‘اس کی وجہ وارداتوں میں ہونے والا اضافہ ہے‘ بنیادی شہری سہولیات کی عدم دستیابی اپنی جگہ ہے‘جبکہ ذمہ دار لوکل گورنمنٹ کے دفاتر فنڈز نہ ہونے کے باعث اپنی جگہ پریشانی کا شکار ہیں‘ دوسری جانب عوام کو سروسز کی فراہمی کیلئے درجنوں اعلانات‘ اقدامات اور منصوبے لاکھ قابل اطمینان سہی‘بعض بڑی سرکاری علاج گاہوں کے گیٹ پر مریضوں کو وہیل چیئر تک نہیں مل پاتی‘ہر جگہ لمبی قطاروں میں لگنا مریضوں اور ان کے تیمار داروں کیلئے تکلیف دہ ہوتا ہے‘ ایسے میں ان کے پاس کوئی چارہ نہیں ہوتا کہ وہ جہاں سے بھی ہو‘ رقم کا بندوبست کرکے نجی ہسپتال جائیں اور وہاں کسی بھی قاعدے قانون سے آزاد من مانی ادائیگی کرکے سروس حاصل کریں۔ اس وقت صوبائی دارالحکومت کے ساتھ صوبے کے دیگر بڑے شہروں میں ٹریفک کا مسئلہ تکلیف دہ صورت اختیار کئے ہوئے ہے اور اس کی شدت میں روز بروز اضافہ ہی ہوتا چلا جارہا ہے‘ اس میں زیادہ دخل ناقص حکمت عملی کا ہی ہے‘ اس میں وقت کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے پیشگی انتظامات سے گریز بھی شامل ہے‘ آبادیوں کے بے ہنگم پھیلاؤ میں اربن پلاننگ کا فقدان ہی نظرآتا ہے‘بے ہنگم تعمیرات کسی قاعدے قانون کی پابند نہیں‘ زرعی اراضی پر بڑی بڑی آبادیاں بغیر کسی شہری منصوبہ بندی کے پھیل رہی ہیں‘سیوریج کا نظام کم پڑ گیا ہے‘ شہروں کی صفائی سالڈ ویسٹ کو ٹھکانے لگانے کا انتظام وسیع کرنے کی ضرورت اپنی جگہ ہے‘صوبائی دارالحکومت میں تو طبی فضلہ محفوظ طور پر ضائع کرنے کاموثر انتظام تک نہیں ہے‘کیا ہی بہتر ہو کہ چشم پوشی کی روش ترک کرتے ہوئے تلخ حقائق کا سامنا کیا جائے۔