بھارت کی دروغ گوئیاں

جنگ کے بھوکے عوام کو مطمئن کرنے اور حقیقی فوجی کامیابی کے فقدان کو چھپانے کے لئے بھارتی میڈیا نے آپریشن سندور کی رپورٹنگ نہیں کی بلکہ انہوں نے اسے ایجاد کیا۔ حقائق کی جستجو اور حقائق بیان کرنے میں ایماندارانہ صحافت کا مظاہرہ کرنے کی بجائے انہوں نے جنگ کو بالی ووڈ ڈرامے میں تبدیل کر دیا۔ ایک ایسی بلاک بسٹر مصالحہ فلم جو مبالغہ آرائی اور مزاح سے بھری ہوئی تھی۔ جعلی خبروں، ری سائیکل شدہ فوٹیج اور کھلم کھلا جھوٹ نے فضا کو گرما دیا، یہ سب قوم پرستی کے نام پر نشر ہو رہا تھا۔ ہندوستانی میڈیا نے جو کچھ کیا وہ حقیقی صحافت سے کوسوں دور ہے۔ جنگ کے شروع سے ہی ہندوستانی ذرائع ابلاغ نے صحافت کے ہر تصور کو ترک کیا۔ مثال کے طور پر ٹائمز ناؤ نامی ٹیلی ویژن چینل نے بے شرمی سے دعویٰ کیا کہ بھارت نے آپریشن کے دوران پاکستان کا ایک ایف سولہ، دو جے ایف سترہ اور ایک آواکس طیارہ تباہ کر دیا ہے تاہم انہوں نے ایک بھی ثبوت فراہم نہیں کیا۔ اس کے بجائے، انہوں نے ہوائی جہاز کی پرانی فائل فوٹو کا استعمال کیا۔ اس کے بعد ’ری پبلک میڈیا نیٹ ورک‘ نامی ٹیلی ویژن چینل نے ’پاکستان کے وزیر اعظم ہاؤس کے قریب بڑے دھماکے‘ کی من گھڑت رپورٹ نشر کی جبکہ دھماکہ ہوا ہی نہیں تھا۔ یہ خبر نشر کرتے ہوئے انہوں نے کسی ذریعے کا حوالہ نہیں دیا کہ یہ خبر اُن تک کیسے پہنچی لیکن چونکہ بھارت کے سبھی چینلز ایک دوسرے کے دیکھا دیکھی ایسا ہی کر رہے تھے اِس لئے کوئی بھی چینل شرمندہ نہیں تھا۔ بھارت کی سیاسی قیادت اور ذرائع ابلاغ جھوٹ کی بنیاد پر ایک بیانیہ تشکیل دینا چاہتے ہیں جس کے لئے انہوں نے ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر جھوٹ بولا۔ خود کو بھارت کا سب سے مقبول چینل کہلانے والے ”زی نیوز“ نے بھی شائستگی اور سچائی کی ساری حدیں پار کرتے ہوئے جھوٹا دعویٰ کیا کہ بھارتی افواج نے اسلام آباد پر قبضہ کر لیا ہے۔ یہ حقیقت سے اس قدر دور دعویٰ تھا کہ اس بات کی تمیز کرنا مشکل ہو گئی کہ بھارت کے ذرائع ابلاغ جو کچھ بھی نشر کر رہے تھے وہ نیوز رپورٹس تھیں یا بالی ووڈ میں بنائی گئی کوئی ’وار فلم‘۔ سات مئی سے دس مئی تک بھارت کے ٹیلی ویژن چینلوں نے جو کچھ نشر کیا وہ صحافت نہیں بلکہ قوم پرستی کے ایجنڈے میں لپٹا ہوا جھوٹ کا مرکب تھا۔بھارت میں جھوٹ بولنے کے قومی مقابلے میں تجربہ کار صحافی بھی شریک رہے۔ اِن میں نام نہاد قابل احترام نام ”برکھا دت“ بھی شامل تھیں جنہوں نے دعویٰ کر دیا کہ بھارت نے پاکستان کا ایک ایف سولہ جنگی طیارہ مار گرایا ہے اور اس کے پائلٹ کو بھی پکڑ لیا ہے۔ یہ لاپرواہی پر مبنی رپورٹنگ بے بنیاد، خطرناک اور خواہشات پر مبنی تھی۔ برکھا نے اپنے تمام تجربات کے باوجود قوم پرستی کے سستے جوش و خروش کے لئے دیانت داری کا سودا کیا۔ جھوٹ بولنے کے اِس مقابلے میں صرف نجی نیٹ ورکس یا صحافی ہی پیش پیش نہیں تھے بلکہ سرکاری ٹیلی ویژن ”ڈی ڈی انڈیا“ نے بھی بڑھ چڑھ کر دروغ گوئی میں حصہ لیا۔ انہوں نے ایرانی میزائل حملوں کی پرانی فوٹیج نشر کر ڈالی۔ یہ سب مثالیں غیر ذمہ دارانہ، غیر اخلاقی صحافت کی عکاسی کرتی ہیں جن کے ذریعے آگ بجھانے کی نہیں بلکہ جلتی ہوئی آگ پر تیل ڈالنے کی کوشش کی گئی۔ بھارت جنگ مسلط کرنے کے بعد خوف کا شکار تھا۔ ایک ایسا خوف جس نے اُسے جھوٹ بولنے پر مجبور کیا اور جس میں سچائی کا مکمل فقدان پایا جاتا ہے۔ہندوستانی میڈیا کی طرح اُن کا سوشل میڈیا بھی جھوٹ کی افزائش گاہ بن گیا۔ ایسی ویڈیوز اور تصاویر نشر کی گئیں جو غیر متعلقہ تھیں اور غلط واقعات کو مبینہ جنگ سے جوڑ کر پیش کیا جانے لگا۔ امریکہ کے شہر فلاڈیلفیا میں طیارہ حادثے کو غلط طور پر پاکستانی بندرگاہ پر حملہ قرار دیدیا گیا۔ بلوچستان میں ایک پرانے ٹرک دھماکے کو بھارتی فوج کے آپریشن کے طور پر غلط انداز میں پیش کیا گیا۔ صادق آباد میں فیکٹری میں لگنے والی آگ کو فوجی حملے میں بدل دیا گیا جو بھارتی فوجی برتری کا بیانیہ تخلیق کرنے کی بدنیتی پر مبنی کوشش تھی۔ اِس پورے منظرنامے میں بھارتی حکومت نے اختلاف رائے کو دبا کر بیانیے کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹویٹر) نے انکشاف کیا کہ بھارتی حکومت نے بین الاقوامی صحافیوں اور میڈیا تنظیموں سمیت 8 ہزار سے زیادہ اکاؤنٹس بلاک کرنے کا حکم دیا۔یہ بڑے پیمانے پر اُن سوشل میڈیا صارفین کے خلاف سنسرشپ تھی جو ہندوستانی میڈیا سے آنے والی جعلی جنگی کہانیوں کو چیلنج کرنے کی جرات کر رہے تھے۔ آج کے دور میں میڈیا عوام کو دھوکہ تو دے سکتا ہے لیکن اس سے بھارت کے نشریاتی اور اشاعتی میڈیا اداروں پر اعتماد ختم ہو رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر ہندوستان کب تک اس من گھڑت حقیقت میں زندہ رہ سکے گا؟ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ناجیہ اشعر۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)