ومی اسمبلی میں مالی سال 21-2020 کے لیے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کی جانب سے پیش کردہ بجٹ منظور کرلیا گیا۔ اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی سربراہی میں ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیراعظم عمران خان، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو نے بھی شرکت کی۔ اس سے قبل حکومت نے فنانس بل کی شق نمبر کی منظوری میں اپوزیشن کو شکست دی تھی، شق 9 کی حمایت میں 160 اور اس کی مخالفت میں 119 ووٹس دیے گئے تھے۔ جس کے بعد اپوزیشن نے شق وار ووٹنگ میں ہار کے باعث حتمی منظوری کے لیے ووٹنگ پر زور نہیں دیا۔
فنانس بل کی ترامیم اور شق وار ووٹنگ سے قبل وزیراعظم عمران خان اجلاس میں شریک ہوئے، ووٹنگ کے دوران حکومتی اراکین کی بڑی تعداد نے ڈیسکز بجائے اور وزیراعظم کے حق میں نعرے بھی لگائے۔ قومی اسمبلی میں فنانس بل کی منظوری کے بعد وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی اسد عمر نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کیے گئےٹوئٹ میں کہا کہ ' پچھلے کئی دن سے اپوزیشن کے کیے جانے والے بلند دعووں،کچھ میڈیا کےسنسنی خیز تجزیوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ گزشتہ برس کی 29 ووٹ کی اکثریت کے مقابلے میں اس سال حکومت کاکثریت بڑھ کر 41 ہو گئی۔
پچھلے کئی دن سے اپوزیشن کی کیے جانے والے بلند دعوے، کچھ میڈیا کےسنسنی خیز تجزیے اور نتیجہ یہ نکلا کے پچھلے سال کے بجٹ کی حکومت کی 29 ووٹ کی اکثریت اس سال بڑھ کر 41 ہو گئی. تمام ساتھیوں اور خصوصی طور پر تحریک انصاف کے ورکرز کو مبارک.
— Asad Umar (@Asad_Umar) June 29, 2020
اسد عمر نے پاکستان تحریک انصاف کے تمام ساتھیوں اور خصوصی طور پر تحریک انصاف کے ورکرز کو بھی مبارکباد دی۔ قبل ازیں اجلاس سے اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپوزیشن کی جانب سے وزیراعظم سے مستعفی ہونے کے مطالبے پر کہا تھا کہ عمران خان کو عوام کا اعتماد حاصل ہے وہ استعفیٰ نہیں دیں گے۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ میں خواجہ آصف کو یقین دلاتا ہوں کہ کورونا کا شکار کسی رکن کو ایوان میں آنے کی اجازت نہیں دی نا ہم اتنے غیر ذمہ دار ہیں۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ ہمیں کوئی مایوسی نہیں ہے یہ ایک سالانہ فنانس بل ہے جو ہر سال پیش کیا جاتاہے اور ان غیر معمولی حالات میں جس طرح ایوان چلایا گیا اور جن افراد نے اس کی سربراہی کی، مختلف جماعتوں کی جانب سے مختص کردہ وقت سے کہیں زیادہ تجاوز کرتے ہوئے اپوزیشن میں سے جس رکن نے بات کرنا چاہی انہیں موقع دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ساری کارروائی بہت اچھے طریقے سے آگے بڑھی ہے اور میں کورونا کا شکار کسی رکن کو ایوان میں بلانے کی تردید کرتا ہوں۔
وزیر خارجہ نے اپوزیشن سے کہا کہ 'کہا جاتا تھا کہ ان کی صفوں میں کھلبلی مچ گئی، آج دیکھ لیں عمران خان کا ایک ایک ٹائیگر یہاں موجود ہے'۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ سب عمران خان اور اس کے نظریے کے ساتھ کھڑے ہیں، حکومتوں کی پرواہ نہیں نظریے کا دفاع کریں گے، سودے بازی نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ آج پوری قوم سن لے کہ عمران خان ایک مقصد کے لیے آیا ہے، انہوں نے کہا کہ میں اپنی اتحادی جماعتوں کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ سو جتن کرلیے گئے لیکن وہ چٹان کی طرح اپنی جگہ قائم ہیں اور رہیں گے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ سودا کرنے نہیں آئے، سوداگر نہیں ہیں نظریے کا سودا نہیں کریں گے۔ وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ گزشتہ روز پریس کانفرنس میں اور آج ایک پارلیمانی رکن نے کہا کہ وزیراعظم استعفیٰ دے دیں، وزیراعظم استعفیٰ کیوں دیں؟ عمران خان کو ایوان کا اعتماد حاصل ہے، پاکستانی عوام نے انہیں مینڈیٹ دیا ہے وہ استعفیٰ نہیں دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بھی کہا گیا کہ نوٹس لینا بند کردیں یہ کرپشن کریں، منی لانڈرنگ کریں اور ہم نوٹس نا لیں، عمران خان تو آئے ہی نوٹس لینے کے لیے ہیں۔
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اپوزیشن نے جب بھی مثبت بات کی ہم نے ان کا شکریہ ادا کیا لیکن آج پہلی مرتبہ دیکھا کہ پاکستان پیپلزپارٹی کے اراکین پاکستان مسلم لیگ (ن) کے دوستوں کو معافی مانگنے کا کہہ رہے ہیں اور وہ ڈیسک بجارہے ہیں۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ بجٹ پر بحث ہوچکی مزید بحث کی گنجائش نہیں فنانس بل پیش ہوچکا ہے اس پر ووٹنگ کروائیں۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کے پاس اکثریت ہے تو وہ اس فنانس بل کو مسترد کردیں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔
وزیر خارجہ سے قبل پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رکن خواجہ آصف نے کہا تھا کہ میں حکومتی اراکین سے یہ یقین دہانی چاہوں گا کہ آج (29 جون) ایوان میں کورونا کا شکار کوئی رکن موجود نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے علم میں یہ بات آئی ہے کہ حکومتی اراکین کورونا کا شکار اراکین کو اسمبلی میں لائے ہیں، انہیں مجبور کیا گیا ہے کہ وہ ووٹنگ کے وقت یہاں موجود ہوں۔
خواجہ آصف نے کہا کہ یہ میرے یا 342 افراد کے تحفظ کی بات نہیں، آج پورا پاکستان بجٹ اجلاس دیکھ رہا ہے اگر قوم کو پیغام جائے گا کہ اپنا اقتدار بچانے کے لیے، اگر اپنے بجٹ کو پاس کرانے کے لیے کورونا کا شکار اراکین کو ایوان مین لایا گیا تو یہ جمہوریت اور پارلیمنٹ کی توہین ہوگی۔ انہوں نے اسپیکر اسمبلی سے کہا کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ آج اور کل ہونے والے اجلاسوں میں کورونا سے متاثر اراکین شریک نہیں ہوں گے۔
خواجہ آصف نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو مزید نقصان پہنچانے سے روکنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے پیٹرول کی قیمت 100 روپے فی لیٹر کردی ہے، اس سے نا صرف پیٹرول پر اثر پڑے گا بلکہ یہ اب گیس اور بجلی پر بھی بم گرائیں گے۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے الزام لگایا کہ حکومت نے ٹیرفس میں تبدیلی کے لیے لیکویڈیٹرز سے وعدے کیے ہیں۔ خواجہ آصف نے کہا کہ بجٹ ایک عبوری دستاویز ہے، ہم مزاحمت کریں گے اور اس کی مخالفت کریں گے۔
ان کاکہنا تھا کہ کراچی اسٹاک ایکسچینج میں دہشت گردوں کے حملے کی اطلاع ملی ہے جس میں چاروں دہشت گردوں کو مار دیا گیا ہے جبکہ ایک پولیس اہلکار اور شہری شہید ہوئے، میں اس پر انتہائی افسوس اور غم کا اظہار کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ 2013 میں جب ہم اقتدار میں آئے تو پاکستان کے طول و عرض میں دہشت گردی کا بازار گرم تھا، پیپلزپارٹی کے دورِ حکومت میں مختلف آپریشنز کا آغاز کیا گیا تھا جس میں سوات آپریشن ہوا تھا جس سے دہشت گردی کے واقعات میں کمی آئی تھی۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے کہا کہ جب نواز شریف وزیراعظم بنے تو پاکستان کا کوئی فرد کراچی سے لے کر گلگت تک دہشت گردی سے محفوظ نہیں تھا۔ خواجہ آصف نے کہا کہ پچھلے 7 سے 8 سال میں ہماری رینجرز، پولیس اور افواج کی قربانیوں اور شہادتوں، ان حملوں میں شہید ہونے والوں کی قربانیوں کی بدولت دہشت گردی میں بہت حد تک کمی آچکی ہے لیکن آج کا واقعہ اور چند روز قبل وزیرستان میں کیپٹن کی شہادت ہوئی تھی تو میرا خیال ہے کہ یہ جنگ ختم نہیں ہوئی اور دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ جاری ہے۔
انہوں نے کہا کہ وضاحت کی یہ کمی اور دو رخی پالیسی دہشت گردی کے خلاف ہمارے کاز کو نقصان پہنچاتی ہے،' اللہ تعالیٰ پاکستان کو دہشت گردوں اور دہشت گردوں کو شہید کہنے والے کنفیوزڈ اذہان سے محفوظ رکھے'۔ خواجہ آصف نے کہا کہ ملک میں پیٹرول کی قلت پر اس ایوان میں اپوزیشن اور حکومتی بینچز نے بھی احتجاج کیا۔
انہوں نے کہا کہ پہلے مصنوعی قلت پیدا کی گئی کیونکہ حکومت اور منافع خوروں کے درمیان گٹھ جوڑ تھا اور جب قیمتوں بڑھائی گئی تو ملک میں پیٹرول ملنا شروع ہوگیا۔ خواجہ آصف نے کہا کہ ملک میں ایک کروڑ سے زائد افراد بیروزگار ہوگئے ہیں اور ملک کی 50 فیصد افراد خط غربت سے نیچے چلے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک طرف حکومت، مافیاز کو فائدہ پہنچارہی ہے اور دوسری جانب سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں کوئی اضافہ نہیں کیا۔ مسلم لیگ(ن) کے رہنما نے کہا کہ حکومت نے عالمی وبا کا مقابلہ کرنے کے لیے عوام کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا ہے۔
اجلاس کے دوران فواد چوہدری نے قائد حزب اختلاف شہباز شریف کی غیر موجودگی میں خواجہ آصف کے بطور اپوزیشن لیڈر اظہار خیال کرنے پر اعتراض کیا اور کہا کہ وہ اسمبلی قوانین کی خلاف ورزی کررہے ہیں۔ فواد چوہدری نے اسپیکر قومی اسمبلی کو اس حوالے سے رولنگ دینے کا کہا جس پر اسد قیصر نے کہا کہ یہ اپوزیشن کا اندرونی معاملہ ہے۔
ان کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ سارے پاکستان کو نظر آرہا ہے کہ وزیراعظم کے پاس صرف 2 آپشنز ہیں، وزیراعظم مان لیں کہ وہ غلط ہیں معافی مانگیں کہ انہوں نے غلط فیصلے کیے، انہوں نے ملک کو اور سب کو تباہ کردیا، ہر پاکستانی کی صحت کو خطرے میں ڈال دیا اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کا اعلان کریں یا پھر وزیراعظم استعفیٰ دیں اور گھر چلیں جائیں تاکہ کسی قابل انسان کو یہ کام سونپا جائے۔ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بجٹ تقریر میں پیٹرول کی کمی کے ذریعے ریلیف پہنچانے کا کہا گیا ہے لیکن بجٹ پاس ہونے سے 2 دن پہلے ہی عوام پر پیٹرول بم گرا دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ جب پی ٹی آئی اپوزیشن میں تھی تو پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو پیٹرولیم لیوی سے متعلق بڑے بڑے لیکچر دیتی تھی لیکن ایک عالمی وبا کے دوران عوام کو ریلیف پہنچانا تھا تو پیٹرولیم لیوی کا بم گرادیا، جس سے ہر پاکستانی کی جیب پر ڈاکا ڈالا گیا۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ یہ غیر قانونی ہے کیونکہ جو کام آئل اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) نے کرنا تھا وہ وزارت نے کیا، اس سے صرف پیٹرول بیچنے والی کمپنیوں کو فائدہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ خود کو تحریک انصاف کیسے کہتے ہیں جب عوام پر اتنا ظلم کرتے ہیں، یہ اپنے عوام کو شکل کیسے دکھائیں گے اور اپنے حلقوں میں کیسے جائیں گے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ جب وزیراعظم نے ادویات پر نوٹس لیا تو ان کی قیمتوں میں 500 فیصد اضافہ ہوگیا، کورونا کے شروع میں ماسکس پر نوٹس لیا تو ماسک کا جو ڈبا 150 روپے کا ملتا تھا اب 1500 روپے کا ملتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے آٹا، چینی پر نوٹس لیا تا تو وہ مہنگے ہوگئے تو بہتر ہے وزیراعظم اپنے آپ کو قرنطینہ میں رکھیں اور کسی بھی چیز پر نوٹس نہ لیں کوئی تقریر نہ کریں۔
انہوں نے کراچی میں طیارہ حادثے کی تحقیقات پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پائلٹس پر جعلی ڈگری کا الزام لگا کر پاکستان انٹرنیشنل لائنز (پی آئی اے) اور سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے) کی نجکاری کرنا چاہ رہے ہیں۔ چیئرمین پیپلزپارٹی نے کہا کہ ان پائلٹس کو جہاز میں ہونا ہی نہیں چاہیے تھا کورونا کے دوران پروازوں کی اجازت نہیں دینی چاہیے تھی اور پھر کہتے ہیں کہ وہ کورونا وائرس پر بات کررہے تھے۔
بلاول بھٹو نے پی ایس ایکس پر حملے کی مذمت کی، انہوں نے کہا کہ کراچی میں بیروزگاری کی وجہ سے امن و امان کے مسائل بڑھیں گے، اس وقت کراچی کے عذاب میں ہیں کے الیکٹرک ان کا خون چوس رہے ہیں وہ بلوں میں اضافہ کررہے ہیں اور لوڈ شیڈنگ بھی کررہے ہیں۔ چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ 'ان سب کو اور مسلم لیگ (ن) کو بھی معافی مانگنی چاہیے، وزیراعظم، محترمہ بے نظیر بھٹو کو شہید نہیں کہہ سکتے لیکن اسامہ بن لادن کو شہید کہتے ہیں'۔
ان کے بعد وفاقی وزیر برائے صنعت حماد اظہر نے کہا کہ آج کے اجلاس میں ہم فنانس بل سے متعلق ترامیم پیش کرنے اور اسے منظور کرنے کے لیے موجود ہیں۔ حماد اظہر نے کہا کہ سخت حالات ہیں، اراکین نے ماسکس پہنے ہیں شیلڈز بھی لگائے ہوئے ہیں، آج میں توقع کررہا تھا کہ ایوان میں جامع گفتگو ہوگی لیکن بارہا اپوزیشن کی جانب سے ذاتی حملے کیے گئے۔
انہوں نے کہا کہ ہماری اپوزیشن کا یہ حال ہے کہ ملک وبا کا شکار ہے اور یہ ایوان کے اس قیمتی وقت میں جہاں پوری ملک کی قیادت موجود ہے ذاتی حملے کرنے میں مصروف ہے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ اجلاس میں تیل کی قیمتوں پر بات ہوئی، جب عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی ہوئی تو ہم دنیا کا وہ ملک تھے جہاں قیمتوں میں سب سے زیادہ کمی کی گئی تھی۔
حماد اظہر نے کہا کہ آج جب تیل کی قیمت اپنے نچلے پوائنٹ سے دگنے سے زیادہ ہوگئی ہے تو قیمت دوبارہ بڑھی ہے جسے عالمی مارکیٹ کے تحت کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اس ملک میں جب تک زراعت کی بنیاد ٹھیک نہیں کی جائے گی یہ ملک آگے ترقی نہیں کرسکتا۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ فنانس بل میں پیش کی جانے والی ترامیم میں دو اور تین پہیے والی گاڑیوں اور ٹرک سے متعلق ترامیم موجود ہیں جو تاریخی ہیں۔
حماد اظہر نے کہا کہ اگر ہم اس ملک کو وبا سے نکالنا چاہتے ہیں تو اس ٹیکس فری بجٹ پر متفق ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں شاید ہی کبھی ٹیکس فری بجٹ آیا ہو کہ ایک کروڑ 60 لاکھ گھرانوں کو مستفید کرنے کے لیے ذرائع موجود ہوں، 30 لاکھ کاروبار کے 3 ماہ کے بجلی کے بل ادا کیے جارہے ہوں، چھوٹے صارفین کے لیے بجلی کے بلوں کو مؤخر کیا گیا ہو، صحت کے لیے 50 ارب روپے رکھے گئے ہوں، پی ایس ڈی پی میں سب سے زیادہ رقم بلوچستان اور پھر صوبہ سندھ کے لیے مختص کی گئی ہو۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جب میں بجٹ تقریر پیش کرنے کے لیے کھڑا ہوا تھا اور جب بجٹ پیش بھی نہیں ہوا تھا تو نامنظور کے نعرے لگائے گئے جبکہ اس وقت معلوم بھی نہیں تھا کہ بجٹ میں کیا ہے۔
مولانا اسد محمود اور علی امین گنڈا پور کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ
اجلاس کے دورام متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کے مولانا اسد محمود اور پی ٹی آئی کے علی امین گنڈا پور کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا۔ بجٹ مسترد کرتے ہوئے مولانا اسد محمود نے حکومت کی کارکردگی سمیت کشمیریوں کے مسائل سے متعلق حکومت پر تنقید بھی کی۔ بعدازاں وفاقی بجٹ منظور ہونے کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے اجلاس کل (بروز منگل) کی صبح 11بجے تک ملتوی کردیا۔
اپوزیشن نے بجٹ مسترد کردیا، حکومت کی اتحادیوں سے ملاقاتیں گزشتہ روز پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو نے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے پیش کیے گئے 21-2020 کے بجٹ پر کہا تھا کہ 'متحدہ حزب اختلاف نے اس بجٹ کو مسترد' کردیا۔
انہوں نے کہا تھا کہ 'ہم اُمید کررہے تھے کہ موجودہ حالات میں وفاقی حکومت کا بجٹ عوام کے طبی مسائل کو حل کرے گا لیکن بجٹ میں عوام پر مزید بوجھ ڈال دیا گیا۔ جس کے کچھ دیر بعد ہی پی ٹی آئی کے وزرا نے متحدہ اپوزیشن کی پریس کانفرنس میں بجٹ کو مسترد کیے جانے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ اس بجٹ میں حکومت نے کوئی نئے ٹیکسز نہیں لگائے تو اپوزیشن کس بات کو مسترد کر رہی ہے۔
مزید برآں وزیر اعظم عمران خان نے بجٹ21-2020 کی منظوری کے لیے پی ٹی آئی اور اتحادی جماعتوں کے قانون سازوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے گزشتہ شام عشائیہ کی میزبانی کی تھی جہاں انہوں نے زور دیا تھا کہ ان کی حکومت یقینی طور پر اپنی 5 سالہ مدت پوری کرے گی۔
اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی بیک ڈور کوششوں کی وجہ سے عشائیے میں شریک نہ ہونے والے حکمراں جماعت کے 14 اراکین اسمبلی، جن میں حاجی امتیاز اور نواب کرامت شامل تھے، عشائیہ کے بعد وزیر اعظم ہاؤس پہنچ گئے۔ علاوہ ازیں مسلم لیگ (ق) کے صدر چوہدری شجاعت حسین نے اعلان کیا تھا کہ ان کی پارٹی بجٹ کے حق میں ووٹ دے گی لیکن عشائیے میں شرکت نہیں کی تھی۔