اسلام آباد:براڈ شیٹ معاملہ پر مزید انکشافات سامنے آگئے ہیں۔
برطانوی وکلاء سے ملنے والی دستاویزات میں کہاگیاہے کہ موساوی حکومت پاکستان سے ایک ارب ڈالر کے حصول کیلئے کھیل کھیل رہا تھا اور اس نے حکومت پاکستان کو بے وقوف بنانے کیلئے برطانوی وکیل ظفر علی کی خدمات حاصل کرنے کی کوشش کی اور حکومت پاکستان سے ایک ارب ڈالر لے کر دینے پر100ملین ڈالر دینے کی پیشکش کی تھی۔
دستاویزات کے مطابق برطانوی کمپنی براڈ شیٹ کے مالک موساوی کے کلیم اور پیش کی گئی دستاویزات کے تناظر میں تین برطانوی شہری بیرسٹر سید ظفر علی،ڈاکٹر کرسٹین پکس اور مسٹر شاہد اقبال نے اپنا جواب جاری کردیا ہے اور یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ پاکستان کی لوٹی ہوئی دولت کی ریکوری کے لئے براڈ شیٹ کمپنی کے مالک موساوی نے تمام حقائق بیان نہیں کئے ہیں۔
جاری بیان کے مطابق ظفر علی،شاہد اقبال اپنے دوست کی دعوت پر پاکستان گئے تھے اور وزیراعظم عمران خان سے ملاقات ہوئی جس میں لوٹی ہوئی دولت کی واپسی کیلئے بات چیت ہوئی۔بعد میں وزیراعظم عمران خان سے ملاقات ہوئی۔
وزیراعظم نے بڑے واضح الفاظ میں کہا کہ بیرونی ممالک میں پاکستان کی لوٹی گئی دولت واپس لانے کیلئے وہ ریکوری یونٹ کو اختیارات سونپ چکے ہیں۔
برطانوی وکیل ظفر علی نے وزیراعظم عمران خان کے علاوہ کابینہ کے دیگر ممبران سے بھی ملاقات کی اور اس وقت کے وزیر خزانہ اسد عمر سے اپنی دستاویزات پر تبادلہ خیال بھی کیا۔ان کے علاوہ اٹارنی جنرل آف پاکستان اور ریکوری یونٹ کے سربراہ شہزاد اکبر سے بھی ملاقات کی۔تاہم ان ملاقاتوں میں پاکستان کی کسی انٹیلی جنس اداروں اور پاک فوج کا کوئی ممبر شامل نہیں تھا۔
ان تینوں برطانوی شہریوں سے بعد میں براڈ شیٹ کمپنی کے مالک موساوی کی ملاقات بھی ہوئی جس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ وہ کسی نہ کسی طرح حکومت پاکستان سے اربوں ڈالر حاصل کرسکے۔
برطانوی شہری علی اور مسٹر پکس نے دعویٰ کیا ہے کہ براڈ شیٹ کی صلاحیت،اہلیت بارے جو دعوے کئے گئے ہیں وہ مبالغہ آرائی پر مبنی ہیں اور موساوی برطانوی جیل میں بھی سزا کاٹ چکے ہیں اور موساوی جس طرح دعوے کرتے ہیں وہ حقائق کے برعکس بلکہ مبالغہ آرائی پر مبنی تھے،اس بناء پر مسٹر علی اور مسٹر پکس نے فیصلہ کیا کہ وہ موساوی کے ساتھ رابطے ختم کریں گے جبکہ حکومت پاکستان نے بھی لوٹی ہوئی دولت کی واپسی کے لئے تجاویز کو منظور نہیں کیا تھا اور اس سے آگے یہ مسئلہ بڑھا بھی نہیں تھا۔