حکومت گرانے کی حکمت عملی پر پی ڈی ایم میں اختلافات کھل کر سامنے آگئے

 اسلام آباد:حکومت گرانے کی حکمت عملی پر اپوزیشن اتحاد (پی ڈی ایم) کی دو بڑی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی میں اختلافات کھل کر سامنے آگئے۔

تفصیلات کے مطابق پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی طرف سے عمران خان کو گھر بھیجنے کے معاملے پر اختلافات کا اظہار کھل کر کیا جانے لگا۔

گڑھی خدا بخش میں پیپلز پارٹی کی تقریب سے خطاب میں سابق صدر آصف زرداری نے گزشتہ ماہ ہی پی ڈی ایم کو حکمت عملی بدلنے کا مشورہ دیا تھا۔

گزشتہ روز بلاول بھٹو زرداری نے لاڑکانہ میں تقریب سے خطاب میں اپوزیشن اتحاد کو عمران خان کے خلاف تحریک اعتماد لانے سے متعلق مشورہ دیا۔

اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) نے پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت کی طرف سے مشورے اور تجاویز سامنے آنے پر اعتراض اٹھادیا۔

ن لیگ کے سینئر رہنما اور سابق وزیر داخلہ احسن اقبال نے بلاول بھٹو کی گزشتہ روز کی تجویز پر تبصرہ کرتے ہوئے کہاکہ اگر بلاول کے پاس تحریک عدم اعتماد لانے کے نمبرز ہیں تو پیش کریں۔

انہوں نے اس موقع پر پی پی چیئرمین کو یاد دلایا کہ سینیٹ میں نمبرز پورے ہونے کے باوجود اپوزیشن کی تحریک ناکام ہوئی تھی۔ن لیگ نے اپنی سوچ واضح کردی ہے کہ حکومت کے خلاف فیصلہ کن مارچ کیا جائے۔

اس حوالے سے احسن اقبال نے مارچ میں لانگ مارچ کرنے کی تجویز بھی دے دی۔لانک مارچ سے پہلے تحریک عدم اعتماد پر غور ہوسکتا ہے حکومت کو این 51 او اور براڈ شیٹ کے پیچھے چھپنے نہیں دیں گے۔

یاد رہے کہ ایک ر وز قبل بلاول بھٹو نے کہا تھاکہ حکومت کو گرانے کا آئینی طریقہ تحریک عدم اعتماد ہے، جو 10 جلسوں سے نہیں ہوا، ہوسکتا ہے چائے پر ایک ملاقات سے ہوجائے۔

ذرائع کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد لانے کے معاملے پر پی ڈی ایم جماعتوں کے 5 اہم قائدین ان ہاؤس تبدیلی کے مخالف ہیں جبکہ چار قائدین نے حمایت کردی۔ پی ڈی ایم کے کئی رہنماؤں نے پیپلز پارٹی سے وضاحت مانگ لی۔ 

نجی ٹی وی  کے مطابق پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کے اکثر قائدین نے سربراہی اجلاس طلب کرنے کا مطالبہ بھی کر دیا۔

 پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان، محمود خان اچکزئی، ساجد میر،عبدالمالک بلوچ، اویس احمد نورانی ان ہاؤس تبدیلی کے مخالف نکلے۔

ذرائع کے مطابق اختر مینگل،بلاول بھٹوزرداری اور بلوچستان نیشنل پارٹی اِن ہاؤس تبدیلی کے حق میں ہیں، قومی وطن پارٹی کے آفتاب احمد شیر پاؤ ان ہاؤس تبدیلی کے حامی ہیں۔

 مسلم لیگ ن نے بلاول بھٹو زرداری کے ان ہاؤس تبدیلی کے بیان پر دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی اپنالی۔

ن لیگ کیمطابق مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف شروع دن سے ہی ان ہاؤس تبدیلی کے مخالف رہے۔

یاد رہے کہ اپوزیشن اتحاد، مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی، جمعیت علما اسلام، جمعیت علما پاکستان، نیشنل پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، مرکزی جمعیت اہلحدیث، پختونخواملی عوامی پارٹی، قومی وطن پارٹی پر مشتمل ہے۔