الیکشن کا بخار۔۔۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کا یہ کہنا بجا ہے کہ احسان اللہ احسان بھی بہت جلد قانون کی گرفت میں آ جائے گا اس میں رتی بھر بھی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہونی چاہئے کہ ہمار ی انٹیلی جنس کے ادارے آ ئی ایس آئی کا کوئی جواب نہیں ‘اس کی بے مثال کارکردگی اور بر وقت مداخلت کی وجہ سے وطن عزیز کے خلاف ہمارے دشمنوں کے کئی منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے ‘یہی تو وجہ ہے کہ ہماری انٹیلی جنس کا یہ ادارہ ہمارے دشمن کی آ نکھوں میں ہمیشہ کھٹکتا رہا ہے ‘ آج کے ٹیکنالوجیکل دور میں انٹیلی جنس کے کام میں بھی بڑی فنی مہارت کی ضرورت پڑتی ہے اور ہمارے لئے یہ بات قابل فخر ہے کہ اس فیلڈ میں بھی آئی ایس آئی نہ تو امریکہ کی سی آئی اے سے کسی لحاظ کم ہے اور نہ اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد یا روس کی خفیہ ایجنسی کے جی بی اس کے ہم پلہ ثابت ہوئی ہے ۔جوں جوں سینٹ کے الیکشن کی تاریخ نزدیک آ رہی ہے اور انتظار کی گھڑیاں ختم ہونے جا رہی ہیں ملک کی سیاست کا بخار چڑھنے لگا ہے ‘یہ الیکشن حکومتی پارٹی اور پی ڈی ایم دونوں کے لئے سیاسی طور پر زندگی اور موت کا سوال ہے ‘پی ٹی آئی نے اگر ڈرائیونگ سیٹ پر رہنا ہے تو اسے اس الیکشن میں مطلوبہ نشستیں جیتنی ہوں گی ‘بلاول اور مریم دونوں کی نظریں وزیراعظم کے منصب پر ہیں ‘اولالذکر اپنے آپ کو بے نظیر کا جانشین سمجھتا ہے جبکہ ثانی الذکر اپنے آپ کو نواز شریف کے سیاسی ورثے کی مالکہ ‘یہ ان دونوں کی بھاری بھول ہے ۔جماعت اسلامی نے جو انٹرا پارٹی الیکشن کا نظام اپنے ہاں رائج کر رکھا ہے وہ اکثر سیاسی مبصرین کی نظر میں بہترین قسم کا نظام ہے اور اس میں پارٹی کے ہر فرد کو مکمل آزادی ہوتی ہے کہ وہ جس فرد کو جماعت کا سربراہ بنانا چاہے بنا لے یا جماعت کے دیگر کلیدی عہدوں پر فائز ہونے کے لائق سمجھے اسے ان مناصب کیلئے چن لے عدالت عظمیٰ کے کئی جج صاحبان نے بھی کئی کئی مرتبہ اپنے ریمارکس میں اس خامی کا ذکر کیا ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ ہر سیاسی پارٹی کے اندر اس قسم کا انٹرا پارٹی الیکشن کا نظام ہونا چاہئے کہ جس میں پارٹی کے ہر شخص کو مساوی حق حاصل ہو کہ وہ کسی بھی عہدے کے لئے الیکشن میں حصہ لے سکے اور پارٹی کی قیادت کو یہ اختیار بالکل نہ ہو کہ وہ اوپر سے پارٹی کے کسی عہدے پر کسی فرد کو مسلط کرے ۔ یہ دیکھ کر ہر جمہوریت پسند ذی ہوش پاکستانی کو دکھ بھی ہوتا ہے اور افسوس بھی کہ ہر پارٹی میں سینکڑوں کی تعداد میں سفید ریش ‘تجربہ کار اور پارٹی کے ساتھ وفاداری نبھانے والے سیاسی لیڈر موجود ہیں کہ جنہوں نے اپنی زندگی کا ایک بیشتر حصہ اپنی سیاسی پارٹی کی خدمت میں صرف کیا ہے پر انہیں پارٹی کے اندر انہیں کوئی اہم سیاسی عہدہ کبھی بھی نہیں دیا جاتا ۔ہر چلو وہ تو بادشاہی کا دور تھا جہاں بادشاہ سلامت کی ہاں میں ہاں نہ ملانا اپنی موت کو دعوت دینے کے مترادف ہوا کرتا تھا آج تو صورتحال یکسر بدل چکی ہے آج کا زمانہ انسانی حقوق کا زمانہ ہے۔