مسئلے کی تشخیص کی ضرورت۔۔۔۔

 کیا پی پی پی اور مولانا فضل الرحمان صاحب کے درمیان بھی باہمی اعتماد کی فضا ختم ہوتی جا رہی ہے ؟اگر ایسا نہیں ہے تو پھر آخر بلاول کے اس بیان سے کیا اخذ کیا جائے کہ مولانا نے ایسٹیبلشمنٹ سے مل کر الیکشن لڑا پھر بھی ہم نے ان کے دھرنے کی حمایت کی۔ادھر سینٹ میں نواز لیگ سمیت اپوزیشن جماعتوں کا آ زاد گروپ تشکیل پا گیاہے جس میں پی پی اور اے این پی شامل نہیں شنید ہے کہ یہ گروپ پی پی پی اور اے این پی سے وضاحت طلب کرے گا کہ اس نے بلوچستان عوامی پارٹی سے ووٹ کیوں لیا ظاہر ہے کہ جب ان دو سیاسی پارٹیوں کو شو کاز نوٹس جائے گا تو کیا ان کے قائدین اسے اپنی بے عزتی نہیں سمجھیں گے ؟ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ مولانا صاحب کی مکمل صحت یابی کے بعد ان کے مشورے سے اس ضمن میں مزید کاروائی کی جائے گی یہ سب حقائق اس شک کو تقویت دیتے ہیں کہ پی ڈی ایم کئی مشکلات کا بری طرح سے شکار ہو چکی ہے اور اس کے خیرخواہوں کو خدشہ ہے کہ کہیں اس کا شیرازہ نہ بکھر جائے پر مولانا صاحب نے ابھی ہمت نہیں ہاری اور وہ اسی تگ و دو میںہیں کہ پی ڈی ایم ٹوٹنے سے بچ جائے تا کہ اپوزیشن جماعتیں اگلا الیکشن اس کے پرچم تلے ہی لڑیں۔ دوسری طرف کورونا کی تباہ کاریاں جاری ہیں اور حکومت کی بھر پور کوشش کے باوجود یہ مسئلہ گھمبیر ہوتا جارہا ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ بھی ہے کہ کوئی بھی حکومتی ہدایات پر عمل کرنے کو تیار نہیں معاشرے کا ہر طبقہ اس کے کسی حکم کو سنجیدگی سے نہیں لے رہا جس کی تازہ ترین مثال کورونا وائرس کے ایس او پیز پر عمل درآمد میں عوام کی عدم دلچسپی ہے۔ اسلام آباد کے تاجروں کی ہی مثال ہم آپ کو دے دیتے ہیں دنیا بھر میں دکاندار اپنا کاروبار صبح سویرے سورج کے طلوع ہونے کے ساتھ ہی شروع کر دیتے ہیں اور پھر سورج کے غروب ہونے کے وقت اپنی دکانیں بند کر دیتے ہیں مقصد ان کا یہ ہوتا ہے کہ حتی الوسع انرجی بچائی جائے اور بجلی کا استعمال کم سے کم ہو اپنے ہاں الٹی گنگا بہتی ہے ہمارے دکان داروں کو انتظامیہ کہہ کہہ کر تھک ہار چکی کہ خدا را تم بھی صبح صبح دکانیں کھولو اور مغرب کے وقت بند کرو پر مجال ہے کہ ان کے کان پر جوں بھی رینگی ہو ان کی ٹریڈ یونینز اتنی مضبوط ہیں کہ ان کے آگے انتظامیہ کی دال نہیں گلتی وہ فورا ہڑتال کی دھمکی دے دیتے ہیں اور انتظامیہ فورا ًان کے آگے گھٹنے ٹیک دیتی ہے کم و بیش یہی حال ملک بھر کا ہے اس طرح تو عوامی یاحکومتی معاملات نہیں چلا کرتے قانون کا خوف اور دبدبہ اگر ایک مرتبہ کسی کے دل سے ختم ہو جائے تو وہ معاشرہ پھر اخلاقی تنزلی کا شکارہو جاتا ہے انتظامیہ اور پولیس والوں کا یہ گلہ ہے کہ عوام پر ان کا جو خوف اور دبدبہ تھا اور ان کی جو عزت تھی وہ آج اس لئے نا پیدہے کہ ایک عرصے سے ہر حکومت وقت پبلک کے سامنے ان کی بے عزتی کرتی چلی آ رہی ہے جس سے ان کا مورال کافی ڈاو¿ن ہو چکا ہے اور ان کو عوام کی نظر میں بے توقیر کر دیا گیاہے۔ نہ جانے ہمارے حکمران ہمارے سیاستدان ہمارے بیوروکریٹس ماضی سے کیوں نہیں سیکھتے اس ملک میں کبھی چینی کا بحران ہوتا ہے تو کبھی کپاس کا تو کبھی کسی اور چیز کا یہ لوگ ان ممکنہ بحرانوں سے بچنے کیلئے آخر ایڈوانس میں بروقت پلاننگ کیوں نہیں کرتے اگر آپ سیلاب کو روکنے کیلئے بروقت حفاظتی انتظامات نہیں اٹھاتے تو پھر اس وقت کچھ نہیں ہو سکتا کہ جب سیلاب کا پانی آپ کے سر پر چڑھ آئے اس وقت پھر ڈوبنے سے آپ کو کوئی نہیں بچا سکتا یہ دیکھ کر دکھ ہوتاہے کہ ہر سال اس ملک کو ایک ہی قسم کے مسائل کا بار بار سامنا کرنا پڑتا ہے جو ایک ذی شعور انسان کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے کہ اس قسم کا مسئلہ تو پچھلے سال بھی ملک کو درپیش آیا تھا تو متعلقہ حکومتی اداروں نے آخر اس کا سد باب کیوں نہ کیا کہ جس کی وجہ سے یہ اس سال دوبارہ امڈ آیا ہے ملکی معیشت کسی صورت بھی سنبھلنے کا نام نہیں لے رہی اس کی زبوں حالی کی درست تشخیص نہیں کی جا رہی اور جب تک کسی بیماری کی صحیح تشخیص نہ ہو اس کا علاج کیسے ممکن ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ مربوط منصوبہ بندی اور منظم انداز میں مسائل کا حل ڈھونڈا جائے اور پھر اس کے لئے وضع شدہ پروگرام پر عملدرآمد کیا جائے اس ضمن میں ماضی کو کریدنے کی بجائے مستقبل پر نظر رکھی جائے تو زیادہ بہتر ہے کیونکہ ماضی کو کریدنے سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں۔