پی ڈی ایم کی ہانڈی انجام کار بیچ چوراہے میں ٹوٹ گئی ہے اے این پی کا اس اتحاد سے نکل جانا اس کےلئے بہت بڑا سیاسی دھچکا ہے کسی دور میں جے یو آئی اور اے این پی مضبوط اتحادی تھے ۔پر اس ملک کی سیاست چیز ہی ایسی ہے کہ جس میں کوئی حرف آخر نہیں ہوتا حالات کا رخ دیکھ کر سیاستدان اپنی ترجیحات متعین کرتے ہیں جس طرح کی سیاست اس ملک میں کی جاتی ہے اس کے نقطہ نظر سے اگر دیکھا جائے تو ملک کی موجودہ سیاسی کشمکش میں اگر کسی سیاسی پارٹی نے اپنی ساکھ بنائی ہے تو وہ پی پی پی ہے اس نے دیگر اپوزیشن پارٹیوں کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے‘ مولانا فضل الرحمان صاحب یقینا افسردہ ہوں گے کہ باوجود کوشش بسیار وہ پی پی پی اور نواز لیگ کے درمیان دوبارہ بڑھتی ہوئی دوریاں نہ مٹا سکے اس بات کا قوی امکان ہے کہ پی ڈی ایم کے اندر جو دو سیاسی دھڑے بن گئے ہیں وہ آئندہ دو سالوں میں کوشش کریں گے کہ ملک کے باقی ماندہ سیاسی عناصر کو بھی اپنے جام میں اتار کر اپنے ساتھ اتحاد میں شامل کریں لگ یہ رہا ہے کہ پی پی پی اور نواز لیگ کے پرانے زخم پھر تازہ ہو گئے ہیں ‘ اے این پی نے ضرور پی پی پی کا ساتھ دینا تھا کہ زرداری صاحب نے اپنے دور اقتدار میں ان کا کافی سیاسی ساتھ دیا ہے اسلئے وہ بھی آج پی پی پی کا سیاسی طور پر ساتھ دے رہی ہے ۔ یہ بھی نظر آرہا ہے کہ شاید جماعت اسلامی بھی آئندہ الیکشن میں پی پی پی کے پلڑے میں اپنا وزن ڈال دے جوں جوں آئندہ الیکشن کی تاریخ نزدیک تر ہوتی جائے گی آپ کو نیرنگی سیاست اپنے عروج پہ نظر آئے گی کیا آئندہ الیکشن میں اصل مقابلہ تین مختلف سیاسی دھڑوں کے درمیان ہوگا؟کیا یہ تین بڑے گروپس پی ٹی آئی پی پی پی اور اور پی ڈی ایم بشمول نواز لیگ پر مشتمل ہوں گے؟کیا ان تین دھڑوں میں دو بڑے دھڑے آپس میں سیاسی اتحاد کر کے تیسرے دھڑے کے مقابلے میں متفقہ امیدوار کھڑا کریں گے؟کیا پی ٹی آئی اور پی پی پی کے سیاسی دھڑوں میں کسی قسم کا الیکشن کا اتحاد ممکن ہے؟ جس طرح کہ آپ اچھی طرح جانتے ہیں اس ملک کی سیاست میں ہر چیز ممکن ہے اس لیے سردست کوئی حتمی رائے نہیں دی جا سکتی پر یہ بات مدنظر رکھنی چاہئے کہ کل کے دشمن آج کے دوست بن سکتے ہیں اور کل کے حلیف آج کے حریف بن سکتے ہیں اگر تو شریف فیملی کے اندر حمزہ شریف اور مریم نواز کے درمیان فاصلہ پیدا ہوا تو نواز لیگ کا اگلے الیکشن میں پنجاب میں خصوصی طور پر اور دوسرے صوبوں میں عمومی طور پر کافی نقصان ہو سکتا ہے اگر تو آئندہ الیکشن میں جماعت اسلامی پی پی پی کا ساتھ دیتی ہے اور جے یو آئی س پی ٹی آئی کا اور جے یو آئی فضل الرحمٰن گروپ نواز لیگ کا تو اس صورت میں ان تینوں مذہبی سیاسی پارٹیوں کا ووٹ بینک تقسیم ہونے کا بہت بڑا خطرہ ہے ۔چند گھنٹوں بعد ڈسکہ میں الیکشن متوقع ہے اور اور اس میں نواز لیگ اور پی ٹی آئی کے درمیان کانٹے دار مقابلے کی توقع ہے تجربہ یہ بتاتا ہے کہ اس ملک میں دس میں سے نو مرتبہ ہمیشہ برسر اقتدار دار حکومت نے ہی ضمنی الیکشن جیتا ہے لہٰذا اگر یہ الیکشن نواز لیگ جیت جاتی ہے تو یہ اچھنبے کی بات ہو گی ویسے نون لیگ کا یہ الیکشن جیتنا خارج از امکان اس لیے نہیں کہ پنجاب میں اس کی اچھی خاصی اکثریت موجود ہے امید ہے کہ اب کی دفعہ الیکشن کمیشن نے اس الیکشن کو غیر جانبدرانہ منصفانہ اور شفاف انداز سے کرانے کےلئے تمام تر حفاظتی انتظامات کر لیے ہوں گے ، نہایت افسوس کی بات ہے کہ اس ملک میں کئی الیکشن تواتر سے ہو ئے ہیں پر ابھی تک ک کسی بھی حکومت نے ایسا فول پروف نظام نہیں بنایا کہ الیکشن سے ہر قسم کی دھاندلی کا قلع قمع ہو جائے ۔