احتساب وقت کا تقاضہ۔۔۔۔

 پی ڈی ایم والے ڈسکہ کا ضمنی الیکشن جیتنے پر بغلیں بجا رہے ہیں وہ جہانگیر ترین اور عمران خان کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج پر بھی نہال ہیں کئی سیاسی مبصرین کے خیال میں نواز لیگ کا ڈسکہ کا الیکشن جیتنا اتنی اچھنبے کی بات نہیں ہے کہ وہ روایتی طور پر مسلم لیگ کی ہی سیٹ تھی نواز لیگ کیلئے البتہ حیرت اور تشویش کی بات یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار نے اس کی توقعات سے کئی گنا زیادہ ووٹ حاصل کئے ہیں اس مقابلے کو بجا طور پر کانٹے دار مقابلہ کہا گیا ہے کیونکہ جیتنے والے اور ہارنے والے امیدوار کے ووٹوں کے درمیان بس انیس بیس کا ہی فرق ہے واقفان حال کا کہنا ہے کہ اب بھی وقت گزرا نہیں اگر کچھ لوگ بیچ میں پڑھ کر جہانگیر ترین اور عمران خان کے درمیان مفاہمت کا کوئی رستہ نکال لیتے ہیں تو یہ بحران زیادہ ہونے سے پہلے ہی دم توڑ سکتا ہے۔ادھر واقفان حال کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمان صاحب ایک اور مرتبہ نواز لیگ اور پی پی پی کے درمیان مفاہمت کی کوشش ضرور کریں گے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ان کا اپنا سیاسی مستقبل اس بات سے جڑا ہوا ہے کہ پی ڈی ایم یکجا رہے اس کے بکھر جانے سے ملک کے سیاسی منظر نامے پر ان کی گرفت کافی حد تک کمزور پڑ سکتی ہے نیز جس طرح کوئی بھی مچھلی پانی سے باہر نکل کر زندہ نہیں رہ سکتی بالکل اسی طرح ہر سیاست دان کا ہر وقت خبروں میں رہنا اس کیلے تازہ خون کی بوتل اور آ کسیجن کے مترادف ہوتا ہے لگ یہ رہاہے کہ رمضان شریف کے مہینے اور کورونا کے بڑھتے ہوئے زور کی وجہ سے اس ملک کے سیاسی لوگ ایک آدھ ماہ تک خاموش رہیں گے اور عید کے بعد کہیں جا کر وہ دوبارہ متحرک ہونے کی کوشش کریں گے پر عیدالفطر کے بعد کڑاکے کی گرمی اور عیدالضحیٰ اور محرم الحرام کے چالیس ایام ان کے احتجاج کا جو بھی شیڈول ہو گا اس کے آڑے آ سکتے ہیں اور اس طرح یہ بات ستمبر کے وسط تک جا سکتی ہے محمود خان اچکزئی اور مولانا فضل الرحمن صاحب کے درمیان حالیہ ٹیلی فونک بات چیت سے یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ عید الفطر کے بعد حکومت کے خلاف اپنی تحریک کو دوبارہ فعال کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں پر ہم نے جو مندرجہ بالا زمینی حقائق بیان کئے ہیں ان کے پیش نظر کسی بھی اپوزیشن پارٹی کیلئے یہ ممکن نہ ہوگا کہ وہ ستمبر سے پہلے عوام کو سڑکوں پر لانے کا سوچ بھی سکے۔نقار خانے میں طوطی کی آواز کو بھلا کون سنتا ہے کہنے کی حد تک تو جماعت اسلامی کے سربراہ کی یہ بات ٹھیک ہے کہ اس ملک میں وقتا ًفوقتاً سرمایہ داروں نے اپنے سیاسی اثر و رسوخ کی وجہ سے بینکوں سے جو اربوں روپے کے قرضے حاصل کئے اور جو بعد میں انہوں نے مختلف حیلوں بہانوں سے معاف کروا لئے ان کی ریکوری ضروری ہے پر اس قسم کا مطالبہ کرتے کرتے تو لوگوں کا گلہ بیٹھ گیا ہے پر مجال ہے کہ کسی حکمران کا دھیان اس طرف گیا ہو اور اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ کونسی ایسی سیاسی پارٹی ہو گی کہ جس میں اس قسم کے لوگ کلیدی عہدوں پر فائز نہ ہوں گے کہ جنہوں نے بہتی گنگا میں اشنان نہ کیا ہو جو بھی اقتدار میں آ یا ملک کے خزانے میں اضافے سے زیادہ اپنے بینک بیلنس میں ہی آضافہ کیا۔ آجکل اس قسم کی خبریں بھی اخبارات میں شائع ہورہی ہیں کہ حکومت نے سوئس کیس کی تحقیقات کا فیصلہ کیا ہے اس قسم کی خبریں ماضی میں بھی چھپتی رہی ہیں پر ان کا پھر کوئی منطقی نتیجہ نہیں نکلا اس ملک کا المیہ یہ ہے کہ جب بھی اشرافیہ سے تعلق رکھنے والا کوئی شخص کسی مالی غبن کے کیس میں پھنس جاتا ہے تو پھر وہ اپنا سیاسی اثر ورسوخ استعمال کر کے کچھ عرصے بعد اپنے خلاف کیس کو بند کرا دیتا ہے یا کسی اور کے ذریعے سے اسے ختم کرا دیتا ہے اس ملک میں بلا امتیازاور یقینی احتساب کی ضرورت ہے جب تک اس ملک کو کرپشن سے پاک نہیں کیا جائے گا اس ملک میں عوام دوست سیاست کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ اس ملک میں پولیس ہمت اور جرات کا مظاہرہ کر کے قانون کی خلاف ورزی کرنے والے کسی ایسے فرد کے خلاف پرچہ کاٹ سکے یا اسے جرمانہ کر سکے کہ جس کا تعلق اشرافیہ سے ہو ؟بلغاریہ کے وزیراعظم کو وہاں کے محکمہ صحت کے حکام نے اس لئے جرمانہ کر دیا کہ انہوں نے ماسک نہیں پہنا ہوا تھا وطن عزیز میں آپ روزانہ درجنوں ایسے مناظر دیکھتے ہوں گے کہ اعلی مناصب پر تعینات کئی افراد بغیر ماسک پہنے جمگھٹوں میں کھڑے ہو کر تقاریر بھی کر رہے ہیں اور ان کے ساتھ فوٹو سیشنز میں بھی شامل ہو رہے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ جن معاشروں میں قانون کی پاسداری کا ماحول پروان چڑھے تو وہاں بہت سے مسائل کا خاتمہ خود بخود ہونے لگتا ہے۔