پی پی پی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی نے گزشتہ اتوار اور پیر کو جو فیصلے کئے وہ پہلے سے متوقع تھے پی ڈی ایم کی طرف سے جاری کردہ شو کاز نوٹس کو بلاول نے مبینہ طور پر اجلاس میں پڑھا اور پھر اسے پھاڑ دیا جس پر کمیٹی کے اراکین نے تالیاں بجائیں رانا ثناءاللہ اور دوسرے لیگی رہنماو¿ں نے بلاول کی اس حرکت کو بچگانہ حرکت قرار دیا رانا صاحب نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ بے شک پی پی پی اور اے این پی اپنی علحیٰدہ سیاست کرے کیونکہ پی ڈی ایم الیکشن کیلئے کوئی اتحاد تھوڑی تھا جبکہ بلاول نے شو کاز نوٹس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں سیاست سے زیادہ اپنی عزت عزیز ہے پی پی پی نے یہ بھی فیصلہ کیاہے کہ وہ پی ڈی ایم سے باہر نہیں نکلے گی بادی النظر میں تو مندرجہ بالا حقائق اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ بات کافی بگڑ چکی ہے اور مولانا فضل الرحمان صاحب کیلئے اب مزید مشکل ہو گیا ہے کہ وہ ان دو پارٹیوں کو ایک پلیٹ فارم پر لا سکیں۔عمران خان کےلئے جہانگیر ترین کا معاملہ واقعی بڑا مشکل معاملہ تھا اگر وہ ان کو کسی نہ کسی طریقے سے نیب کی انکوائری سے بچانے کی کوشش کرتے تو ان پر اپوزیشن والے یہ الزام دھر دیتے کہ احتساب کے معاملے میں وہ دوغلے پن کا شکار ہیں اور انہوں نے جہانگیر ترین کو انکوائری سے اسلئے بچا لیا ہے کہ وہ ان کا دوست ہے جہانگیر ترین کو بھی اب ذرا حوصلے کا مظاہرہ کرنا چاہئے اگر انہیں اس بات پر یقین ہے کہ ان کےخلاف کوئی فوجداری کیس نہیں بنتا اور یہ کہ انہیں ایک جھوٹے کیس میں ملوث کر دیا گیا ہے تو انہیں اس ملک کی عدالتوں پر پورا پورا یقین ہونا چاہئے کہ وہ ان کےخلاف کیسز کو پرکھنے کے بعد انہیں رہا کر دیں گی وزیر اعظم صاحب کو بھی اس معاملے کی گہرائی میں جانا چاہئے اور ٹھنڈے دل سے اس بات کا اندازہ لگانے چاہئے کہ آ یا جہانگیر ترین کے خلاف کوئی سازش تو نہیں بنائی گئی اور اگر کوئی سازش بنائی گئی ہے تو اس میں کن کن لوگوں کا ہاتھ ہے لگ یہ رہا ہے کہ عمران خان کے خیر خواہ اس کوشش میں مصروف ہیں کہ 30 کے قریب پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی فوراً سے پیشتر وزیراعظم صاحب سے ملاقات کر کے جہانگیر ترین کی صفائی پیش کریں یہ وہ اراکین ہیں کہ جو جہانگیر ترین کے گروپ سے تعلق رکھتے ہیں الیکشن ابھی دور ہیں پر ابھی سے کئی سیاسی جماعتوں نے اس کیلئے صف بندیاں شروع کر دی ہیں واقفان حال کا کہنا ہے کہ اے این پی اس مرتبہ الیکشن میں سولو فلائٹ کا ارادہ رکھتی ہے اور وہ اب کی دفعہ الیکشن میں کئی نئے چہروں کےساتھ سیاسی اکھاڑے میں اترے گی البتہ الیکشن کے بعد حکومت سازی کیلئے وہ دیگر سیاسی جماعتوں سے اتحاد کر سکتی ہے ۔کئی ماہرین معیشت کے خیال میں یہ بات غور طلب ہے کہ اس ملک میں آخر چاول کی بابت کوئی بحران کیوں نہیں پیدا ہوتا اور اس کی پیداوار اتنی وافر ہے کہ اسے ایکسپورٹ بھی کیا جا رہا ہے اس کا جواب وہ یہ دیتے ہیں کہ وہ اس لئے کہ اس کے معاملات میں کوئی سرکاری مداخلت نہیں ہے اسی بنا پر مسابقتی کمیشن نے حکومت پنجاب کی طرف سے چینی کی قیمت مقرر کرنے کی مخالفت کی ہے اور اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ اس سے چینی کی ذخیرہ اندوزی کا رحجان بڑھے گا ان ماہرین کے مطابق بہتر یہ تھا کہ چینی کے کاروبار کو ڈی ریگولیٹ کیا جاتا کیونکہ ڈی ریگولیشن سے مقابلے کا رحجان بڑھتا ہے جو عام آدمی کیلئے سودمند ہوتا ہے یہی سسٹم اگر مارکیٹ میں موجود ہو تو کسی کو بھی اشیائے خورد ونوش کی قیمتوں میں اضافہ کرنے کی آزادی نہیں ملے گی اور عوام کو مناسب نرخوں پر اشیاءدستیاب ہوں گی۔